• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ پہلے میرے دوست کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، وہ اپنی سرکاری گاڑی میں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں پرانی کتابوں کی ایک دکان نظر آئی، اسے چونکہ لکھنے لکھانے سے بھی شغف ہے سو اُس نے فوراً دکان کے پاس گاڑی رکوائی تاکہ اپنی پسند کی کوئی کتاب خرید سکے۔ اتنے میں ایک اور گاڑ ی پاس آکر رکی اور اُس میں سے ایک بزرگوار برآمد ہوئے جن کی عمر پچھتر برس کے قریب تھی۔ موصوف نے سفاری سوٹ پہن رکھا تھا۔ پہلے تو انہوں نے غور سے سرکاری گاڑ ی کو دیکھا، پھر میرے دوست سے گویا ہوئے ’’کیا آپ مجسٹریٹ ہیں؟‘‘ میرے دوست نے جواب دیا کہ نہیں اور پھر اپنے محکمے کا نام بتایا، اس پر موصوف نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’میرا نام ج چ ہے اور میں وفاقی سیکریٹری ریٹائر ہوا ہوں، آپ مجھے جانتے ہوں گے!‘‘ میرے دوست نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، اس پر وہ صاحب تھوڑے سے جزبز ہو کر بولے کہ کمال ہے، میں تو فلاں فلاں محکمے میں سیکریٹری رہا ہوں، فلاں فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر رہا ہوں، اب تو آپ کو یاد آگیا ہوگا! میرے دوست نے کہا ’’سر! میری بدقسمتی کہ میں نے آپ کا نام نہیں سنا‘‘۔ پھر بھی اُن صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے کچھ مزید محکموں اور تعیناتیوں کا ذکر کیا اِس امید پر کہ شاید میرا دوست کہہ دے کہ ہاں سر! آپ کا تو بڑا نام سنا ہے مگر میرے دوست نے زندگی میں پہلی مرتبہ اُن کی شکل دیکھی تھی سو پہچاننے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ اس پر ج چ صاحب کچھ مایوس ہو گئے لیکن پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑا، میرے دوست کے ہاتھ میں جو کتاب تھی وہ اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے ’’ذرا دیکھیں تو آپ کا ذوق کیسا ہے... (یکدم ٹریک بدلتے ہوئے) اصل میں جب میں کمشنر تھا تو اُس زمانے میں پورا ڈویژن میرے نیچے تھا، ہر کوئی مجھے جانتا تھا، میں جہاں سے گزرتا لوگ مجھے روک لیتے، مجھ سے ملاقات کی خواہش کرتے، ملنے میں فخر محسوس کرتے، میں نے وہاں بہت کام کیا اسی لیے لوگ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، پھر میری پوسٹنگ بطور سیکریٹری ہو گئی، وہاں بھی میں ہر دلعزیز ہی رہا، میرے ماتحتوں میں سو کے قریب لوگ تھے، سب کے سب مجھے اپنا رول ماڈل سمجھتے تھے، ہر معاملے میں مجھ سے رہنمائی لیتے تھے، مجھ سے پوچھے بغیر محکمے میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا، میرا اپنے ماتحتوں پر مکمل کنٹرول تھا، پھر میرا تبادلہ ایک کارپوریشن میں کر دیا گیا، وہاں کے حالات تو ایسے تھے کہ جب میں صبح دفتر پہنچتا تو...!‘‘ ابھی وہ صاحب کارپوریشن تک ہی پہنچے تھے کہ میرے دوست کو خطرے کا احساس ہو گیا، اُس نے سوچا کہ اگر وہ ایسے ہی ج چ صاحب کی گفتگو کی سنتا رہا تو کھڑے کھڑے رات ہو جائے گی اور اُن کی پوسٹنگ کے قصے ختم نہیں ہوں گے چنانچہ اُس سے اپنی سرکاری مصروفیت کا بہانہ بناکر اجازت طلب کی جو ج چ صاحب نے اِس شرط پر دی کہ وہ آئندہ بھی اُن سے رابطہ رکھے گا۔ بدقت تمام میرا دوست اُن سے جان چھڑا کر اسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوا جس کی وجہ سے یہ بوریت کی بلا اُس کے سر ہوئی تھی۔ آج یہ واقعہ مجھے وہ وڈیو کلپ دیکھ کر یاد آیا جس میں کراچی کے ایک سابقہ ایڈمنسٹریٹر پولیس کے اہلکاروں پر محض اِس وجہ سے برس رہے ہیں کہ اُن بیچاروں نے موصوف کو پہچانا کیوں نہیں، ان کا غصہ دیدنی ہے، انہیں اِس بات کا یقین ہی نہیں آ رہا کہ جس شہر کے ایک زمانے میں وہ حاکم تھے، اب اُس شہر میں انہیں کوئی جانتا ہی نہیں!

ج چ صاحب ہوں یا سابقہ ایڈمنسٹریٹر یا اِن جیسا کوئی اور، یہ سب قابلِ رحم لوگ ہیں، اِن پر ترس کھانا چاہیے، غصہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ نفسیاتی مریض ہیں، کسی زمانے میں اِن کے پاس طاقت تھی، دبدبہ تھا، عروج تھا مگر یہ طاقت، دبدبہ اور عروج ایک پوسٹنگ کی بدولت تھا جو سرکاری ملازمت کی وجہ سے ملتا تھا اور سرکاری ملازمت ان لوگوں کو کسی زمانے میں کوئی امتحان پاس کرکے مل گئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایسا کوئی کمال یا ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ لوگ اِن کو یاد رکھتے یا ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتے۔ بالفرضِ محال اگر اپنے دورِ ملازمت میں انہوں نے کوئی کام کیے بھی تھے تو وہ اِن کا فرض تھا، احسان نہیں، مصیبت مگر یہ ہے کہ ہم لوگ اب ایسی پستی میں گر چکے ہیں جہاں اگر کوئی سرکاری افسر وقت پر دفتر آئے تو اِس فرض شناسی کے عوض وہ تمغۂ حسنِ کارکردگی کا طلبگار بن بیٹھتا ہے۔ اِن نفسیاتی مریضوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ماضی میں زندہ ہیں، انہیں حال کا کچھ علم نہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے، آج سے تیس برس پہلے جب یہ لوگ افسر تھے اُس زمانے اور آج کے وقت میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے مگر یہ لوگ اِس فرق کو جان نہیں پائے۔ یہ اپنی عظمتِ رفتہ کو ہی آواز دیئے جا رہے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اُن کی آواز سننے کے لیے آج کسی کے پاس کوئی وقت نہیں۔ اِن لوگوں کو نفسیاتی مریض کہہ کر ترس کھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بدمعاش لوگ نہیں ہیں، ج چ صاحب جو میرے دوست کو ملے تھے، ایک پرانی گاڑی میں سوار تھے، اسی طرح کراچی کے سابقہ ایڈمنسٹریٹر بھی اپنے زمانے میں جو بھی ہوں، کم ازکم آج بدمعاش نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ بدمعاش ہوتے تو اُن کے ساتھ ایک دو اضافی گاڑیاں ہوتیں، اُن میں آٹھ دس بندوقوں والے سوار ہوتے، کوئی پولیس والا اول تو انہیں روکنے کی جرات ہی نہ کرتا اور اگر کوئی ایسی حماقت کر بیٹھتا تو وہیں موقع پر اُس کے ساتھ فوری انصاف کرکے اُس سپاہی کو اُس کی اوقات یاد دلا دی جاتی۔

یہ مزاج صرف ج چ صاحب کا ہی نہیں بلکہ ہماری پوری قوم کا ہے، ہم سب بھی ماضی میں زندہ ہیں، اپنی عظمتِ رفتہ کے خود ہی گُن گاتے رہتے ہیں، اپنے آپ کو ہم نے تمغۂ حسنِ کارکردگی دے رکھا ہے، جب بھی دنیا کا کوئی ملک ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو ہم ایڈمنسٹریٹر صاحب کی طرح فوراً بپھر جاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ ہم پر تنقید کرنے والا بھی درست ہو سکتا ہے، ہمارا تکیہ کلام ہے کہ ’’تمہاری جرات کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی‘‘ یا ’’شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں‘‘! جس طرح نفسیاتی مریض کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ ذہنی بیمار ہے اسی طرح ہماری قوم بھی اپنی بیماری کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، مسلمانوں کے تابناک ماضی میں ہم نے پناہ لے رکھی ہے اور ہمیں یہ زعم ہے کہ آج کی دنیا مسلمانوں کے احسانات تلے دبی ہوئی ہے، لہٰذا اِس دنیا کو ہماری ہیبت سے اُسی طرح کانپنا چاہیے جیسے کسی زمانے میں سلیمان ذیشان سے لرزتی تھی، مگر یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ سلیمان ذیشان کو ریٹائر ہوئے پانچ سو سال ہو گئے، اب اگر ہم ج چ کی طرح دنیا میں کسی کو روک کر پوچھیں گے کہ کیا تم ہمیں جانتے نہیں کہ ہم کتنی عظیم قوم ہیں تو وہ ہمیں اسی طرح نفسیاتی مریض سمجھے گا جیسے میرے دوست نے ج چ کو نفسیاتی مریض سمجھ کر جان چھڑائی تھی۔ یہ ہماری قوم کا پوشیدہ و پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔

تازہ ترین