یہ خبر سن کر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاک فوج کے ایک سابق بریگیڈیئر نے خودکشی کرلی ہے لیکن ٹی وی چینلز پر بار بار بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ’’بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی پراسرار موت۔ لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی۔‘‘ ذہن میں بار بار سوال پیدا ہورہا تھا کہ اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے والا معاشرے میں اعلیٰ مرتبہ ومقام رکھنے والا اور بظاہر ایک خوشحال شخص اقدام خودکشی کیونکر کرسکتا ہے۔ تھوڑی دیر میں بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کا خودکشی سے پہلے ٹائپ کیا گیا خط بھی منظر عام پر آگیا، جو انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا تھا۔ اس خط پر اگرچہ ان کے دستخط نہیں تھے لیکن خط کے مندرجات سے یہ لگ رہا تھا کہ یہ خط انہوں نے لکھا ہے اور خودکشی کا جو سبب بیان کیا ہے، وہ ہر اس باعزت اور باضمیر شخص کی خودکشی کا سبب بن سکتا ہے، جسے بریگیڈیئر (ر) اسد منیر جیسے حالات کا سامنا ہو۔ اسد منیر نے اپنے خط میں اپنی خودکشی کی وجہ اس بے عزتی کو قرار دیا ہے جو قومی احتساب بیورو (نیب) میں ان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی صورت میں ان کی ہوسکتی تھی۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد صرف ایک ہی سوموٹو نوٹس لیا ہے، جو بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی خودکشی سے متعلق ہے۔ میرے نزدیک پہلی مرتبہ یہ سوموٹو میرٹ پر ہے۔
پاکستان میں کرپشن سے زیادہ بڑا مسئلہ احتساب کا منصفانہ، شفاف اور بلا امتیاز نظام کا نہ ہونا ہے۔ اب ہمیں یہ بات کھل کر تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستانی ریاست میںایک جینیاتی (GENETIC) نقص ہے۔ وہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لیے احتساب کا نعرہ لگایا گیا تاکہ پاکستان میں سیاسی اور جمہوری نظام پنپ نہ سکے اور مخصوص قوتیں اپنی من مانی کریں۔ 1949ء میں عوامی نمائندوں کی نااہلی کا قانون ’’پروڈا‘‘ نافذ کیا گیا اور ’’مس کنڈکٹ‘‘ (MISCONDUCT) پر سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا گیا۔ پھر منتخب اداروں کی نااہلی کا قانون ’’ایبڈو‘‘ جاری کیا گیا۔ پھر یہ سلسلہ جاری رہا، جن کا مقصد صرف سیاست دانوں اور عوامی نمائندوں کا احتساب اور ان کی تذلیل تھا۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاست دانوں نے تاریخ کی بدترین کرپشن کی اور حسن شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور مولانا سندھی جیسے درویش لوگ احتساب کا شکار ہوئے۔ پروڈا اور ایبڈو کے بعد احتساب کے جو بھی قوانین بنے، ان کی بنیادی روح یہی بدنیتی تھی کہ سیاست کو ختم کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 اور موجودہ نیب قوانین بھی ایسی بدنیتی کا تسلسل ہیں۔
اب بحیثیت قوم ہمیں مان لینا چاہئے کہ جینیاتی مسئلہ کیا ہے؟ ہم نیب کے قانون میں تبدیلی کی اس لیے حمایت نہیں کرسکتے کہ ہم پر فوراً یہ الزام عائد ہوجاتا ہے کہ ہم کرپٹ سیاست دانوں کے ایجنٹ ہیں۔ آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سیاست دان نیب قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نواز شریف بھی اس لیے کھل کر اس قانون میں تبدیلی کا مطالبہ نہیں کررہے کہ انہوں نے اس قانون میں تبدیلی کے لیے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی رہنمائوں کی بات نہیں مانی تھی۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ اس ملک میں صرف سیاست دان ہی کرپٹ ہیں، باقی سب پارسا ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نیب قانون کو درست تسلیم کرلیتے اور خودکشی نہ کرتے۔ وہ خود بھی نیب راولپنڈی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انویسٹی گیشن رہے۔ انہوں نے خودکشی سے پہلے اپنے لکھے گئے خط میں چیف جسٹس کو یہ باور کرایا کہ وہ تمام ملزمان کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آتے تھے اور ان کے ماتحت تحقیقاتی افسران کو پتہ تھا کہ جرم کیا ہے؟ بے قاعدگی کیا ہے؟ بھول چوک کیا ہے؟ اور خطا کیا ہے؟ انہوں نے ان دو چار جملوں میں یہ واضح کردیا کہ تفتیش اور تحقیقات کے مرحلے میں ملزم کا میڈیا ٹرائل اور میڈیا کے سامنے اس کی پیریڈ اس کی اصل سزا سے بھی زیادہ بڑی سزا ہے۔ اس پر وہ اپنے اہل خانہ، بچوں، رشتہ داروں اور تعلق داروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ بعد میں وہ بے شک بے قصور ثابت ہو لیکن وہ باعزت اور معمول کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا۔
اکتوبر 2018ء میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران اور یونیورسٹی کے دیگر پروفیسرز کو ہتھکڑی میں عدالت میں پیش کرنے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور اس عمل کو شرمناک قرار دیا۔ دسمبر 2018ء میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر جاوید احمد کی نیب کی حراست میں ہتھکڑیوں میں موت ہوگئی۔ اس واقعہ نے پوری پاکستانی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پھر بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے خودکشی کرلی۔ یہ سارے سیاست دان نہیں تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اسد منیر کی خودکشی کا سوموٹو نوٹس لیا، جو بلاوجہ سوموٹو نہیں لیتے ہیں۔ عدالت میں کئی بار نیب سے کہا گیا ہے کہ وہ نیب قانون کا غلط استعمال کررہی ہے اور مجرم ثابت نہ ہونے والے لوگ وہ سزا بھگت رہے ہیں، جس کے وہ سزاوار نہیں ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن سے زیادہ بڑا مسئلہ احتساب کا بدنیتی والا نظام ہے۔
اسد منیر کی خودکشی کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ قصور ثابت ہونے سے پہلے گرفتاری، میڈیا ٹرائل اور ذلیل کرنے والا نیب کا قانون تبدیل ہونا چاہئے اور اگر یہ قانون تبدیل نہ کیا گیا تو قصور وار ثابت ہونے سے قبل لوگ سزا بھگت لیں گے اور حقیقی کرپٹ لوگ ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔ یاد رہے کہ کرپٹ صرف سیاست دان نہیں ہوتے اور نہ ہی نامعلوم شکایت اور ٹھوس ثبوت کے بغیر ملزم قرار دیئے جانے والے غیر سیاسی لوگ کرپٹ ہوتے ہیں۔ کیا خودکشیوں سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا؟