• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمر بھر سنتے تو یہی آئے ہیں کہ جھوٹ کے پاوٴں نہیں ہوتے لیکن زندگی کے مشاہدات کی روشنی میں یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ جھوٹ کے پاوٴں نہ صرف یہ کہ ہوتے ہیں بلکہ بڑے مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔ کہیں اور ہوتے ہوں یا نہ ہوتے ہوں ہمارے ملک میں تو بہرحال ہوتے ہیں۔ یہاں جھوٹ چلتا ہی نہیں بلکہ اچھلتا کودتا ، بھاگتا دوڑتا ہے۔ اس حقیقت کے ثبوت ہمارے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ جعلی عامل، پیر فقیر، ملاوٹ کے کاروبار، پی ایچ ڈی کی جھوٹی سندوں کے بل پر ڈاکٹر کہلانے والے جعلی اسکالر ، دنیا کی ہوس میں مبتلا عالم فاضل سب اس کا ثبوت ہیں۔ درویشی اور سلطانی سب عیاری ہے۔ ہمارے ہاں روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ لگاکر ملک کو لوٹ کھانے والے بار بار عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں آتے ہیں اور ان کا ووٹ بینک متاثر نہیں ہوتا۔ جعلی ڈگریوں والے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور عدالتی کارروائی کے نتیجے میں نشست سے محروم ہونے کے بعد ضمنی انتخاب میں پھر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جن لیڈروں کے اشاروں پر قتل و غارت کے بازار گرم ہوتے ہیں، جن کے ہاتھ دوسروں ہی کے نہیں خود اپنے بے شمار ساتھیوں کے خون سے رنگین ہیں، ان کے معتقد انہیں مسیحائے دوراں قرار دیتے نہیں تھکتے۔ انتہا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ناقابل فہم خواب اپنے عقیدت مندوں کو سنا کر ان کا استحصال کرنے والوں کا کاروبار بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ جس شخصیت نے بارہ اکتوبر 1999ء کے مارشل لاء کے موقع پر پریس کلب میں موبائل فون پر بات کرکے یہ رعب جمانے کی کوشش کی تھی کہ ان کے لئے جی ایچ کیو سے کال آئی ہے اور ہیلی کاپٹر بھیج کر بلانے کی پیشکش کی جارہی ہے حالانکہ اس وقت تمام موبائل سروسیں بند تھیں جس کی وجہ سے ان کا جھوٹ اسی وقت کھل گیا تھا، جنہوں نے عدالت کے فیصلے کے مطابق سستی شہرت کے حصول اور حکومت کو بدنام کرنے کے لئے اپنے اوپر جھوٹے قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا، جن کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی گولیوں کے دس خولوں میں چار خود ان کی اپنی رائفل کے نکلے تھے اور خون کے چھینٹے اور لکیریں کسی کیمیکل کی کارفرمائی کا نتیجہ ثابت ہوئی تھیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے عقیدت مندوں کی عقیدت میں اس سب کے باوجود کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا جو دعویٰ انہوں نے کیا تھا، اس پر 1990ء کے عدالتی فیصلے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے ”فارینسک ایکسپرٹ کی رائے قادری صاحب کے کیس کی معاونت نہیں کرتی،ان کی رائے مجموعی طور پر یہ ہے کہ قادری صاحب کے گھر پر جو نشانات ہیں،وہ مصنوعی طریقے سے بنائے گئے ہیں،خون کے کیمیائی معائنے نے بھی ظاہر کیا کہ موقع پر کسی کو گولی نہیں لگی،کیونکہ اس خون میں قدرتی خون کی طرح جمے ہوئے عناصر نہیں تھے“۔ عدالتی فیصلے میں ثبوت و شواہد کی روشنی میں اس حملے کو غیر حقیقی اور خود ساختہ اور موصوف کو غیرصحت مند ذہن کا حامل قرار دیا گیا۔ لیکن انہوں نے اس فیصلے کے خلاف کہیں اپیل کرکے اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جس کا بنا پر عدالتی فیصلے کو درست نہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ عوام کا حافظہ لاکھ کمزور سہی مگر یہ ساری باتیں اتنی پرانی نہیں کہ ذہنوں سے محو ہوجائیں۔ یہ تمام حقائق مستند ہیں اور ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ صاحب برسوں بعد غیرملکی شہریت کے ساتھ قوم کے نجات دہندہ بن کر تشریف لاتے ہیں تو ان کے جلسے میں جم غفیر اکٹھا ہوجاتا ہے۔ ان کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کیا جاتا ہے تو حکومت کی اتحادی جماعتیں ان کا ساتھ دینے کے لئے میدان میں نکل آتی ہیں۔ میڈیا نے ان صاحب کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کی پوری کوشش کی ہے اس کے باوجود نہ تو اس ذات والا صفات کے رویّے میں کسی شرمندگی اور معذرت خواہی کا کوئی سراغ ملتا ہے نہ اُن کے عقیدت مند اُن سے کوئی جواب طلب کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے اور سیاسی حلقوں میں رائج مکروہ رویوں کی یہ کوئی ایک مثال نہیں ہے، ہمارے ہاں بہت سے سیاسی لوگ سیاست کو دھوکے اور مکاری کا دوسرا نام سمجھتے ہیں۔ وہ قوم سے مسلسل جھوٹے وعدے کرتے ہیں، تحریری معاہدے کرکے ان سے پھر جانے پر برملا یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک معاہدہ ہی تو تھا کوئی حدیث، قرآن تو نہیں تھا جس سے پھرا ہی نہ جاسکے، اس کے باوجود وہ قوم کے قائد بنے رہتے ہیں، ان کی پارٹیاں انہیں مسترد کرتی ہیں نہ ان کے حامی عوام اور ان کے ووٹر، اس صورت میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ جھوٹ کے بھی پاوٴں ہوتے ہیں اور بہت پائیدار ہوتے ہیں۔
تازہ ترین