• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قاسم میرے پاس کام کرتا ہے وہ کرکٹ کا زبردست شیدائی ہے ۔کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو تو وہ سارے کام بھول کر صرف کرکٹ میں کھویا ہو تا ہے ۔اور اگر اُسے کام کی اہمیت کی وجہ سے کرکٹ میچ چھوڑ کر صرف کام کرنے کو کہا جائے تو وہ پھر بھی آتے جاتے یہ ضرور پوچھتا رہتا ہے کہ اسکور کیا ہے ،کتنے آؤٹ ہو گئے ہیں ،کتنے اوورز رہ گئے ہیں اور پھر وہ اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنی ایوریج نکالتا رہتا ہے کہ اگر فلاں کھلاڑی نے اتنے رنز بنالیے تو یہ ہو جائے گا اور فلاں ایک اوور میں اتنی ڈاٹ بال کر الیں تو میچ کا فیصلہ یوں ہو جائے گا۔ بھار ت کے خلاف ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میچوں کی سیریز کے دوران روٹین کے کام تو کیا اُسے تو ان میچوں نے ہر چیز کو بھلا دیا تھا ۔
وہ ہر کرکٹ سیریز یا میچ سے پہلے ٹیم کے انتخاب پر ضرور تنقید کرتا ہے ۔کہ ٹیم میں کس کس کھلاڑی کی جگہ نہیں بنتی اور کس کھلاڑی کو منتخب نہ کرکے اسکے ساتھ زیادتی کی ہے ۔لیکن بھارت کے خلاف ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے قاسم حیرت انگیز طور پر خوش تھا اور اسکا کہنا تھا کہ پہلی بار بڑی متوازن ٹیم کو منتخب کیا گیا ہے ۔لیکن وہ بیٹنگ آرڈر پر ناخوش ہے۔اسکا کہناہے کہ کامران اکمل کو اگر اوپنر نہیں کھلانا تو اسکو ٹیم میں رکھنا ہی بے فائدہ ہے ۔وہ عمر اکمل کو کسی بھی فارمیٹ کے لیے پلیئنگ سائیڈ میں نہ رکھنے پر سخت غصے میں آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کھلاڑی کو سنوارنے اور اسٹار بنانے کی بجائے ہم ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔قاسم کا کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگاؤکا یہ عالم ہے کہ ایک دن میں نے اسے اپنے ایک تعلیمی ماہر مہمان جن کا نام عبدالحفیظ تھا انکے بارے میں کہا کہ جب حفیظ صاحب آئیں تو مجھے بتانا ،کہنے لگا سر آپ کیا بات کر رہے ہیں حفیظ کا آج آنا تو بہت مشکل ہے ۔میں نے کہا کہ کیا بات کر رہے ہو میری ان سے ابھی کچھ دیر پہلے فون پر بات ہوئی ہے ۔میری اس بات پر وہ ہنس پڑا،اور کہنے لگا سر جی کیوں مذاق کر رہے ہیں ۔حفیظ ان فٹ ہو گیا ہے اور وہ آج بیٹنگ کے لیے نہیں آئے گا۔تب جا کر میں سمجھا کہ یہ عبدالحفیظ نہیں بلکہ محمد حفیظ کرکٹرکی بات کر رہا ہے ۔میں نے اسے سمجھایا کہ حفیظ کرکٹر نہیں بلکہ باریش اور بزرگ شخصیت عبدالحفیظ صاحب آر ہے ہیں ۔لیکن سیریز کے بعد قاسم نے یہ کہہ کہہ کر میرا دماغ چاٹ لیا ہے ۔کہ سرجی پاک بھارت سیریز کا تیسر ا میچ فکس تھا اور پاکستان بھارت سے جان بوجھ کر میچ ہارا ہے ۔میں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی میچ میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے بھار ت بھی ورلڈ کلاس ٹیم ہے اور ورلڈ چیمپئن بھی ہے ۔اگر بھارت جیت گیا ہے تو یقینا اچھا کھیل کر جیتا ہو گا۔قاسم کو شاید میری یہ بات سخت ناگوار گزری اور میں نے اس کے چہرے پر بڑی آسانی سے ناگواری کے اثرات دیکھ لئے۔ وہ کہنے لگا سر بھارت اچھا کھیل کر نہیں جیتا بلکہ پاکستان کی ٹیم جان بوجھ کر برا کھیل کر میچ ہاری ہے اور پھر اس نے نہ جانے لیگ اسٹمپ اور آف اسٹمپ پر پڑنے والی مختلف گیندوں کی کیسی کیسی تشریح کرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کی کئی مثالیں دیں کہ مجھے کہنا پڑا کہ تم مجھے قاسم نہیں بلکہ رمیز راجہ لگ رہے ہو۔میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی قاسم سے پوچھ ہی لیا کہ آخر پاکستان بھارت سے کیوں جان بوجھ کر ہارے گا۔قاسم کہنے لگا سرجی بھارت اس وقت کرکٹ کی سپر پاور ہے لیکن اگر پاکستان تیسرا میچ بھی جیت جاتا تو بھارت کی ٹیم ایک ایسی دلدل میں گر جاتی جہاں سے اسکی کرکٹ کو نکلنے میں کئی سال لگ سکتے تھے اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مایوس اور بپھرے ہوئے بھارتی شائقین اپنے کھلاڑیوں کے گھروں پر حملہ کر دیتے ۔اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کی کرسیاں بھی خطرے میں پڑ جاتیں ۔پوری بھارتی قوم کا مورال مزید ڈاؤن ہو جاتا ۔بھارت کی آئی پی ایل دھری کی دھری رہ جاتی ۔بھارتی کرکٹ بورڈ کے اسپانسرز کنارہ کشی اختیار کر لیتے اور یوں بھارتی کرکٹ جو بڑی کوششوں اور طویل جدوجہد کے بعد اس مقام پر پہنچی ہے یکدم بہت پستی میں چلی جاتی۔میں نے قاسم سے کہاکہ اگر میں تمہاری یہ بات مان بھی لوں تو یہ کیسے مان لو ں کہ پاکستان بھارت کو بچانے کے لیے جان بوجھ کر ہارے گا ۔قاسم نے پرجوش لہجے میں جواب دیا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کی درخواست اور منتوں ترلوں کے بعد میچ پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کو تیار ہو گیا کیونکہ پاکستان بھی تنہائی کی اُس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے جس میں بھارت کا بھی اہم کردار ہے ۔پاکستان نے بھی بڑی منت وسماجت سے بھارت کو کھیلنے کے لیے راضی کیا تھا۔کیونکہ پاکستان کو صرف اسٹیڈیمز سے اسکور بورڈ پر اسکور نہیں چاہیے بلکہ پاکستان کو اپنے خزانے سمیت ہر جگہ اسکور بڑھانا ہے اور دنیائے کرکٹ کی بڑی ٹیمیں جو پاکستان کو امن وامان کا بہانہ بنا کر نقصان پہنچانا چاہتی ہیں بورڈ کو اس صورتحال سے نکلنا ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک آدھ میچ ہارنا ہی ہماری جیت ہے ورنہ ہم اس بنگلہ دیش جیسی ٹیم کی بھی منتیں کرتے رہیں گے جسے ٹیسٹ اسٹیٹس ہماری وجہ سے ملا ہے ۔
تازہ ترین