• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی نظام کے تیزی سے ہوتے خاتمے، نوآزاد ممالک کےسیشن اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کے تیز تر ہوتے عمل اور بڑی طاقتوں کی مختلف خطوں اور ممالک میں دائرہ اثر بڑھانے کی دوڑ کی شکل میں نیم نو آبادیاتی نظام نے سلامتی و استحکام کے مختلف النوع چیلنج پیدا کئے، سیاسی دانشوروں نے ان چیلنجز کو ایڈریس کرتے ہوئے ’’قومی مفاد‘‘ اور ’’بین الاقوامی ایجنڈے‘‘ کو قومی اور بین الاقوامی ضروریات کے طور پر اجاگر کیا اور واضح کیا کہ بڑی طاقتوں نے تمام تر نظریاتی اختلاف کے باوجود قومی مفاد کا تحفظ اور بین الاقوامی ایجنڈے پر عملدرآمد، تحفظِ امنِ عالم کے لئے ناگزیر ہیں۔ بالکل واضح ہے کہ بڑی طاقتوں کی سرد جنگ میں قومی مفادات کا تحفظ اور عالمی ایجنڈے پر عملدرآمد ممکن نہ رہا۔ غالب عالمی طاقتوں اور ان کے اقتصادی اور عسکری معاون ممالک نے نئے عالمی معاشرے کی ہر دو ناگزیر ضروریات (قومی مفادات کا تحفظ اور عالمی ایجنڈے پر عملدرآمد) کی اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کے مقابل دوسروں کی کوئی پروا کی اور نہ بین الاقوامی ایجنڈے کو امن عالم کے لئے ناگزیر سمجھا۔ ثابت شدہ ہے کہ سرد جنگ کے بڑے فریقوں کی یہ سوچ اور اپروچ آنے والے عشروں میں مختلف شکلوں میں ڈھلتی دنیا کے امن و استحکام کے لئے تشویشناک ہی بنتی گئی، حتیٰ کہ اس میں ایک نظریاتی کیمپ کا پلہ بھاری ہونے سے سوویت یونین منہدم ہو گیا، پھر واحد عالمی طاقت اور اس کے حلیفوں کی یکساں اور مطلب کی قومی مفاد، عالمی امن اور اس کی عالمی ضروریات کی من مانی تشریح نے دنیا کو سلامتی و استحکام اور بنیادی حقوق کے حوالے سے نئے خطرات سے دو چار کر دیا، جس کے منطقی نتیجے کے طور پر آج عالمی سیاست کی ایسی صف بندی کا ماحول پیدا ہو چکا، جو کسی طور دنیا کو امن نہیں بلکہ تباہ کن تشویشناک عالمی سیاسی ماحول میں ڈھال رہا ہے۔ صف بندی میں مصروف عمل، تمام ہی عالمی سیاسی گروہ اپنے سیاسی عزائم پورے کرنے کے لئے بڑے چارجڈ معلوم دے رہے ہیں، اللہ خیر، یہ تو بڑی عالمی تباہی کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ کس کے بازو میں کتنا دم تھا اور اپنے بھی اور خطوں اور عالمی سلامتی کے لئے کس کی کیا حیثیت ہے۔ آج کی عالمی سیاسی حقیقت تو یہی ہے کہ فقط اپنے ’’قومی مفاد‘‘ کے مقابل دوسروں کے قومی مفادات اور بنیادی حقوق ثانوی ہی نہیں بے معنی ہیں، لہٰذا حلب اور نئے پیدا کئے جانے والے تنازعات کو اس عالمی سیاسی شیطانی کھیل میں ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں کے طور مکمل ڈھٹائی اور بےشرمی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس پسِ منظر اور بنتی تشویشناک عالمی سیاسی صورتحال میں جو عالمی تنازع سب سے زیادہ خطرناک بنتا جا رہا ہے، وہ مقبوضہ کشمیر کا 71سال سے قائم دائم وہ اسٹیٹس کو ہے جو بھارت کے اپنے’’قومی مفاد‘‘ (اٹوٹ انگ) کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی ایجنڈے اور فیصلوں سے بغاوت اور ریاستی عسکری جبر اور اب ریاستی دہشت گردی کے زور پر قائم رکھنے میں تیزی سے ناکام ہو رہا ہے۔ اس کے لئے اب وہ کبھی امریکہ، کبھی اسرائیل، کبھی دونوں کی امداد کا طالب ہے اور خطے کے ملکوں کی ہمنوائی اور تعاون لینے کی بیتابی اور بے چینی اسے (بھارت کو) مکمل غیر ذمہ دار اور جنگی جنونی بناتی جا رہی ہے۔ بھارت گینگ ریپ، ظالمانہ طرز کی گھر گھر تلاشی کی کتنی ہی شیطانی سیریز کے بعد مقبوضہ کشمیر کے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لئے اسرائیلی میڈ پیلٹ گن کی نہتے اور پُرامن مظاہرین کشمیریوں پر مسلسل بےرحمانہ استعمال کے بعد مقبوضہ کشمیر کی انتہائی خطرناک صورتحال پر لے آیا ہے، جو اڑھائی سال قبل جواں سال مظفر وانی کے بنائے ننھے سے گروپ کے بندوق ا ٹھا کر شہادت پانے کے بعد آتش فشاں کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ’’جمہوریہ ‘‘ بھارت اس کو رپورٹ کرنے کے لئے نئی دہلی میں مقیم غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کو ان کی پیشہ ورانہ ضرورت کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو رپورٹ کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں، جس پر عالمی ابلاغی حلقوں، رائے عامہ کی یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے، برہان وانی کی شہادت نے کشمیریوں کی تحریک میں جو نئی روح پھونکی ہے، اس نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی مقبوضہ علاقے کے اسٹیٹس کو ہر حال میں برقرار رکھنے کے لئے ظلم و تشدد اور ریاستی دہشت و وحشت کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ جس شدت کے ساتھ گزشتہ پانچ سال سے جاری رکھا ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں عشروں سے محبوس کشمیریوں کی تحریک حصول حق خودارادیت اتنا ہی زور پکڑ گئی اور اب یہ ناصرف بھارتی عسکری طاقت کے کنٹرول سے مکمل باہر ہے بلکہ نوجوانوں میں ان کی عمر کے فطری تقاضوں کے مطابق انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر رہی ہے۔ وقتی طور پر یہ ہوا تو ہے کہ بھارت بنیاد پرست بھارتی قیادت کے انتہائی خطرناک جنگی جنون کو کچھ ذمہ دار ممالک نے بروقت قابو کیا ہے اور یہ دنیا کے ریکارڈ پر آگیا کہ اس صورت میں نئی دہلی اور اسلام آباد کا رویہ کیا رہا؟لیکن اس پر عالمی رائے عامہ، ذمہ داران ممالک کی حکومتوں، اسلام آباد اور بھارت میں متوازن ذہن کے حامل حقائق کا ادراک رکھنے والے دانشوروں کا اطمینان بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی مقبوضہ کشمیر کی حقیقی تشویشناک صورتحال کی رپورٹ، امنِ عالم کے ذمہ دار اداروں اور بھارت کے سمجھدار اور حقائق کا ادراک رکھنے والے صاحبان رائے کے صورتحال پر تبصرے، تجزیے اور منکشف حقائق پوری دنیا کے لئے بہت الارمنگ ہیں۔ جیسا کہ واشنگٹن کی سرینگر رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ کس طرح تازہ الذہن نوجوان طلبہ اور پی ایچ ڈی اسکالر اور دانشور تک مقبوضہ کشمیر میں ہتھیار اٹھانے اور شہادتیں پانے کے عزم سے سرشار ہو چکے ہیں۔ یہ تو ابھی ایک رپورٹر کی پہنچ کڑی شرائط کے ساتھ فقط سرینگر تک ہوئی، نئی دہلی میں غیر ملکی میڈیا جتنا براجمان ہے اور بھارت خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں خبری اہمیت کے لحاظ سے پیشہ ورانہ لازمے اپنا دبائو بڑھا رہے ہیں، اس نے بھارت کی موجودہ یا بعد از انتخاب کی نئی سرکار کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا۔ بھارت کا اس میں کامیابی سے نکل جانا پوری دنیا کے سکون و اطمینان و امن کا لازمہ بن گیا ہے، وگرنہ مقبوضہ کشمیر کے نئی ابلاغی ٹیکنالوجی سے اپنی جنگ لڑنے والے نوجوان، جنہیں خود کش حملوں کی طرف مائل کر دیا گیا ہے اور وہ اس خطرناک راہ پر عملاً چل پڑے ہیں، پورے برصغیر کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایسا منڈلاتا خطرہ ہے کہ جس کا فوری سنجیدہ اور نتیجہ خیز نوٹس دنیا کے ہر ملک کا قومی مفاد اور ہنگامی نوعیت کا عالمی ایجنڈا بن چکا ہے۔ آنجہانی نیلسن منڈیلا، سابق امریکی صدر کلنٹن تو اس پر بہت پہلے توجہ دلا چکے، اب یہ ذمہ داری واشنگٹن پوسٹ نے پوری کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی عالمی میڈیا عالمی امن کے لئے کب اور کیسے اپنا کردار ادا کرے گا؟

تازہ ترین