• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے نقشہ سے الوپ یعنی غائب ہو جانے والے پاکستان کے بڑے اور مضبوط بازو مشرقی پاکستان کی طرح صوبۂ سندھ ہم سے دو، ڈھائی ہزار میل دور نہیں ہے۔ میں حساب کتاب میں بہت کمزور ہوں بلکہ ناتواں ہوں۔ اس لئے میں نہیں جانتا کہ دو، ڈھائی ہزار میل کے کتنے کلومیٹر بنتے ہیں۔ میں اگلے وقتوں کا آدمی ہوں۔ اس لئے میری سوئی میلوں پر اٹکی ہوئی ہے، سیر سوا سیر پر اٹکی ہوئی ہے۔ کلومیٹر اور کلوگرام کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا۔ مشرقی پاکستان چوبیس برس پاکستان کا بڑا بازو تھا مگر میں مشرقی پاکستان کے تین بڑے شہروں کے نام نہیں جانتا۔ میں مشرقی پاکستان کے تین بڑے دریائوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نہیں جانتا کہ مشرقی پاکستان سے شائع ہونے والے تین بڑے اخباروں کے نام کیا تھے۔ میں آپ کو مشرقی پاکستان کے تین بڑے شاعروں کے نام نہیں بتا سکتا۔ میں نہیں جانتا کہ مشرقی پاکستان کے تین بڑے ادیب کون تھے۔ ان کے تین بڑے دانشور کون تھے۔ ان کے تین نامور آرٹسٹ،تین بڑے موسیقار،تین بڑے پینٹر کون تھے۔ فردوسی بیگم،شہناز بیگم اور رونا لیلیٰ کے نام ہم اس لئے جانتے ہیں کہ انہوں نے اردو میں گانے، گیت، غزل اور قومی نغمے گائے تھے مگر ہم مشرقی پاکستان کے تین بڑے بنگلہ میں گانے والے گائیکوں کے نام نہیں جانتے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ سندر بن جنگل کے کتنے ہزار میل رقبہ مشرقی پاکستان میں تھا اور کتنے ہزار میل رقبہ ہندوستان کے پاس تھا اور اب تک ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ سندر بن کے ٹائیگر بغیر کسی پاسپورٹ اور بغیر کسی ویزا کے پاکستانی سندر بن اور ہندوستانی سندر بن میں گھومتے رہتے تھے۔ پاکستانی سندربن اب بنگلہ دیش کے پاس ہے۔

بہانے بنانے میں ہم نے اب تک اپنا ثانی پیدا ہونے نہیں دیا ہے۔ ہم مشرقی پاکستان کے بارے میں زیادہ کچھ اس لئے نہیں جانتے تھے کیونکہ مشرقی پاکستان ہم سے ڈھائی ہزار میل دور تھا۔

کچھ سمجھنے اور کچھ ناسمجھنے میں پائی پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔ سیانوں کا فرمانا ہے کہ ناسمجھی کے لاتعداد فوائد ہیں۔ لاعلمی اور ناسمجھی میں کامل مسرت ہےIgnorance is bliss۔ گم گشتہ مشرقی پاکستان ہم سے دو ڈھائی ہزار میل دور تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ سندھ ہم سے کتنے ہزار میل کی دوری پر ہے۔ گم گشتہ مشرقی پاکستان کی طرح ہم نہیں جانتے کہ سندھ میں بہنے والے دریا اور ندیاں کتنی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ سندھ میں جھیلیں کتنی ہیں۔ سندھ کے تین،چار بڑے شہروں کے نام ہم نہیں جانتے۔ سندھ میں پیدا ہونے والی اجناس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ سندھ میں پیدا ہونے والے پھلوں کے بارےمیں اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ سندھڑی آم سندھ میں پیدا ہوتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا نام ہم اس لئے جانتے ہیں کہ قومی یکجہتی کو مدّنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم گاہے گاہے مزار شاہ عبداللطیف بھٹائی پر چادر چڑھانے آتے ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے توڑ کے طور پر جب بھی صوفی شعراء بلھے شاہ، سلطان باہو اور بابا فرید کا نام سامنے آتا ہے تب سندھ سے صوفی سچل سرمست کا نام سنائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم سندھ کے دوسرے کسی شاعر کا نام نہیں جانتے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ صوفی کس کو کہتے ہیں۔ چرس، گانجہ کے نشے میں دھت مزاروں پر پڑے ہوئے مجذوبوں کو ہم عام طور پر صوفی سمجھتے ہیں۔ ہم سندھ کے لوک فنکار، ساز وآواز کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم سندھ کے ادیب، شاعروں؎ اور دانشوروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ بھائی کیاکریں! گم گشتہ مشرقی پاکستان کی طرح سندھ بھی ہم سے یا پھر ہم سندھ سے ہزاروں میل دور ہیں۔

آپ دل چھوٹا مت کریں۔ دنیا کے ہر دوسرے، تیسرے بڈھے، کھوسٹ کی طرح میں بھی کھوجی ہوں۔ بڈھا، کھوسٹ ہو جانے کے بعد چونکہ کرنے کیلئے میرے پاس کوئی کام نہیں ہے، اس لئے میں کھوج لگاتا رہتا ہوں۔ سندھ میں چیدہ چیدہ گھر کے بھیدیوں کا میں نے کھوج لگا لیا ہے۔ سینئر گھر کے بھیدیوں سے میری گاڑھی چھنتی ہے لہٰذا میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ میں سیارہ سندھ کا تعارف آپ سے کرواتا رہوں گا۔ سیارہ سندھ چونکہ ہزاروں میل دور ہے اس لئے جس کے جو جی میں آتا ہے، سندھ کے بارے میں،سمعی بصری ذریعوں کی مدد سے بیان کر دیتا ہے۔ کسی پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ سنی سنائی باتوں کو بنیاد بنا کر آپ افسانے اور ناول لکھ سکتے ہیں۔ آپ کسی ٹیلی وژن چینل کیلئے سیریز اور سیریل لکھ سکتے ہیں۔ سردست سندھ کو بدنام کرنے کیلئے حال ہی میں دو ہندو لڑکیوں کے اغوا اور اغوا کے بعد ان کو زبردستی مسلمان بنانے کے دیو مالائی قصّہ کو خوب ہوا دی گئی ہے۔ ہوائوں کو چونکہ پاسپورٹ اور ویزا لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لئے دو ہندو لڑکیوں کے اغوا اور عقیدہ بدلنے والی گرم ہوا نے ہندوستان کے ایوان اقتدار کو بھی گرما دیا ہے۔ اس بات کو لے کر دونوں ممالک پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے پر ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کے الزام لگا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اقلیتوں کی حفاظت کا فرض یاد دلوا رہے ہیں۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو حقائق سے آگاہ کروں تاکہ آپ سکون کی نیند سو سکیں۔ سب سے پہلے ہم لفظ اقلیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لفظ اقلیت ڈکشنریوں میں موجود تھا مگر اس لفظ کا ظہور اگست چودہ اور پندرہ انیس سو سینتالیس کی درمیانی شب رات کے بارہ بجے کے بعد ہوا۔ ورنہ انگریز کے دو سو سالہ دور حکومت میں برصغیر میں کوئی نہ اقلیت میں تھا اور نہ کوئی اکثریت میں تھا۔ اگر دیکھا جائے تو انگریز قطعی اقلیت میں تھے مگر ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے۔ انگریز نے الوداع کہتے ہوئے برصغیر کا بٹوارہ کیا۔ بٹوارے کے بعد پاکستان میں بسنے والے ہندو اقلیت کہلوانے میں آئے اور اسی طرح ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اقلیت کہلوانے میں آئے۔ اپنے ہی وطن میں اقلیت بن جانا آپ کو کیسا لگتا ہے۔

کچھ کہنے کیلئے مجھے ملی ہوئی زمین یہاں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ سندھ میں اقلیتی لڑکیوں کے اغوا اور عقیدہ بدلنے کی باتیں میں آپ سے اگلی کتھا میں کروں گا۔

تازہ ترین