• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی ایشیاء کے چند معروف صحافیوں اور میڈیا کے ستاروں کے ساتھ برسوں سے ایک گفتگو جاری ہے لیکن تکلم کا سلسلہ جب ٹوٹتا ہے تو کبھی کبھی دو تین برس گزر جاتے ہیں۔ پھر بھی گزشتہ سے پیوستہ کا احساس باقی رہتا ہے۔ گزشتہ ملاقات کی باتیں یاد آجاتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح ، ٹوٹے ہوئے تار جڑ جاتے ہیں۔ اس دفعہ سردی سے ٹھٹرتے ہوئے لاہور میں، دو دن کے لئے کئی پرانے دوستوں کا ساتھ رہا۔ جنوبی ایشیاء کی میڈیا کی تنظیم سانما نے اپنی کانفرنس کا آغاز امرتسر میں کیا اور پھر تمام مندو بین ، واہگہ کے راستے لاہور آگئے۔ میں امرتسر نہ جا سکا تھا لاہور کے پروگراموں میں شرکت کا موقع مل گیا اور ایک بار پھر اجنبی دوستوں سے والہانہ ملاقاتوں کا ہنگامہ بپا ہوا۔یہ میں بتا دوں کہ ان ملاقاتوں میں مرکزی حیثیت بھارت اور پاکستان کے دوستوں کو حاصل ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لطیفے اور گالیاں خوب سمجھتے ہیں۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے ساتھی کبھی کبھی خفا تھی ہو جاتے ہیں اور شکایت بھی کرتے ہیں۔ ہاں بنگلہ دیش سے ہمارا ایک خاص رشتہ ہے۔ کولمبو اور کھٹمنڈو اتنی بار جانا ہوا ہے کہ شناسائی کے دائرے بنتے اور پھیلتے رہتے ہیں۔ تو کہنے کی بات یہ ہے کہ اپنے ملکوں کے حالات کے بارے میں کھل، کر باتیں ہوئیں۔ صحافی یوں بھی، شام کے بعد کی محفلوں میں، کئی ناقابل اشاعت خبروں اور افواہوں کی پٹاری کھول دیتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے انہیں سب کچھ معلوم ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے۔
میری مشکل یہ ہے کہ میں جنوبی ایشیاء بلکہ بھارت اور پاکستان کے اس سفر کو اپنا موضوع بنانا چاہتاتھا کہ جس میں فاصلے ساتھ چلتے ہیں۔ میں نے یہ بھی چاہا تھا کہ میں پاکستان کے جنوبی ایشیائی بندھن کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں کیونکہ ہمارے کئی نظریہ ساز اسے جنوبی ایشیاء سے کاٹ کر مشرق وسطیٰ یعنی عرب ممالک سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ اس لئے نہیں ہے کہ ہمارے ساری توجہ لانگ مارچ ، دہشت گردی کے تازہ واقعات اور سیاسی توڑ جوڑ پر مرکوز ہے۔ اس ہفتے میں نے تین راتیں لاہور میں اور ایک رات اسلام آباد میں گزاری اور یہ سارا وقت ملنے جلنے اور جذبات کی شدت سے معمور گفتگو میں صرف ہوا۔ ایک اور انتہائی اہم اور بااختیار شخصیات سے باقاعدہ مکالمہ بھی ہوا۔ اس پس منظر میں اب جنوبی ایشیاء کے دوستوں سے رابطے کی اہمیت کچھ کم ہو گئی ہے۔ ایک تعلق ضرور یہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ چند دوستوں نے وہی سوال پوچھا کہ جو ہم اپنے آپ سے پوچھتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے ”جناب، یہ آپ کے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟“۔ آپ بتائیے کہ اس سوال کا جواب کیا ہے؟ ایک سطح پر تو یہ ممکن ہے کہ آپ چپ رہیں اور ٹیلی وژن کے کسی نیوز چینل کی طرف اشارہ کر دیں کہ جس پر خون آلود سرخیوں کی لائن لگی ہو۔ یا صبح کے کسی اخبار کا پہلا صفحہ میز پر بچھا دیں۔ میں یہ لفظ جمعہ کی صبح تحریر کر رہا ہوں اور جو پاکستان میرے سامنے ہے اسے پوری طرح دیکھنے اور سمجھنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو ہمارے حکمراں ہیں وہ کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا سمجھ رہے ہیں۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ جو ہمارا معاشرہ ہے جو سول سوسائٹی ہے۔ جو پڑھا لکھا متوسط طبقہ ہے وہ کیوں بے حس ہوتا جا رہا ہے۔ بے عمل ہے۔ سکتے کے عالم میں ہے۔دہشت گردی کے اتنے اندوہناک واقعات مسلسل ہو رہے ہیں۔ انتہا پسندی کے جھکڑ چل رہے ہیں اور کوئی ہمہ گیر، نتیجہ خیز ردعمل دکھائی نہیں دیتا۔
شاید کوئی یہ کہے کہ لانگ مارچ ہماری سیاسی بیداری کا ثبوت بن سکتی ہے۔ اس وقت ضرور ہم سب اس تذبذب کا شکار ہیں کہ اگلے دو چار دنوں میں کیا ہونے والا ہے، کیا ہو سکتا ہے۔ کئی دنوں سے بہ بحث جاری ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی رائے ہے اور کبھی یہ لگتا ہے کہ ایک طوفان سر پر کھڑا ہے اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ایسا ہیجان تو پہلے بھی دیکھا ہے کہ جیسے اب کچھ ہونے والا ہے اور ہوا کچھ بھی نہیں۔ اس وقت کی صورت حال اس لئے یقینا مختلف ہے کہ انتخابات قریب ہیں۔ اہم سیاسی فیصلے ناگزیر ہیں۔ گویا تبدیلیوں کا موسم آ رہا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی توڑ جوڑ کے ذریعے دہشت گردی کو کم اور مذہبی انتہا پسندی کو قابو میں کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس سے امن و امان کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا اس سے عام آدمی کی زندگی سنور جائے گی؟ کیا بچیوں اور خواتین کو ان کے حقوق مل جائیں گے؟ کیا معاشرہ تعلیمی اور تہذیبی معنوں میں اپنی سمت کو تبدیل کر سکے گا؟ ایسے کئی سوال ہیں جو اپنا سر اٹھاتے ہیں۔ اب کوئٹہ میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے وہ تو تازہ ہیں۔ ان کے ہونے سے حکمرانوں کی سوچ اور عمل میں کیا تبدیلی ہوتی دکھائی دے رہی ہے؟ دیکھ تو ہم یہ رہے ہیں کہ بلوچستان حکومت کو اتنے بڑے سانحے کی جیسے خبر ہی نہیں ملی۔ ابتدائی گھنٹوں میں وہ کہیں دکھائی بھی نہیں دیئے۔
جنوبی ایشیاء کے تناظر میں دیکھیں تو دہلی میں ایک 23سالہ خاتون کی اجتماعی زیادتی اور قتل نے پورے شہر ہی کو نہیں، پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس موضوع پر دہلی سے آنے والی خاتون کالم نگاروں سے کافی تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ میں انہیں بالکل یہ نہیں سمجھا سکا کہ پاکستان میں اس قسم کی کسی سرگرمی کے امکانات کیوں نہیں ہیں۔ بچوں کو پولیوں کے قطرے پلانے والی لڑکیاں، کراچی اور پشاور جیسے شہروں میں قتل کر دی جاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ سماجی بہبود کے کاموں میں مصروف چھ خواتین قتل ہو جاتی ہیں اور نہ زمین ہلتی ہے اور نہ آسمان روتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پوری دنیا میں پہچانی جاتی ہے اواسے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا جاتاہے لیکن اس کے اپنے کالج کا نام اس کے نام پر نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ ہم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے ہار چکے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اپنا توازن کھوتا جا رہا ہے اور عدم برداشت کی وبا ایسی پھیلی ہے کہ نوجوان ڈاکٹر اپنا سینہ پھلا کر، اپنے استادوں کو کرسی سے اٹھا کر پھینک سکتے ہیں۔ خوف کی ایک ایسی فضا پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ کچھ کہتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ میں نے بھارت کا ذکر کیا کہ وہاں بھیانک جرائم کی موجودگی کے اعتراف کے بعد، خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک تحریک جاری ہے۔ یہاں بنگلہ دیش کا حوالہ بھی ضروری ہے۔ بھارت کے سب سے معروف دانش ور اور نوبل انعام یافتہ امرتا سین نے کہا ہے کہ انسانی ترقی کے پیمانے پر بنگلہ دیش ، بھارت سے آگے ہے۔ ہم بھی تو اسی جنوبی ایشیاء کا ایک بڑا اور اہم ملک ہیں۔ ہم اتنے پیچھے کیوں رہ گئے۔ بنگلہ دیش تو ایک مسلمان ملک ہے۔ جب وہ قائم ہوا تو اسے مفلسی اور پسماندگی کی ایک مثال جانا جاتا تھا۔ اس سے بننے میں ہمارا کیا رول تھا اس کا ذکر نہیں کرتے، ورنہ زیادہ دل دکھے گا۔ بس یہ دیکھ لیجئے کہ وہ چند شعبوں میں بھارت سے بھی آگے ہے۔
اعداد و شمار ا ور سماجی ترقی کے عالمی معیار سے قطع نظر، جو بات مجھے سب سے زیادہ تنگ کرتی ہے وہ ہماری اجتماعی ذہنی اور جذباتی کیفیت ہے۔ صحافی ہوتے ہوئے، مجھے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد سے ملنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ میں یہ گواہمی دیتا ہوں کہ مایوسی کا ا ندھیرا اقتدار کے ایوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ شاید اس بے بسی کا نتیجہ ہے جو مشکل مسائل کی یلغار سے پیدا ہوئی ہے۔ ہاں، لوٹ مار اور بدعنوانی کی صلاحیت میں کوئی کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اب اس ماحول میں سیاسی مہم جوئی کیا گل کھلائے گی، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ یہ بھی ہمیں معلوم نہیں کہ کون کون؟ کس کس مچان پر بیٹھا ، اس شکار گاہ پر نظر میں جمائے ہے۔ بس یہ ہے کہاب تو دنیا تری ہر بات سے ڈر لگتا ہے؟
تازہ ترین