• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجیب فلسفہ ہے ۔ اچھے بھلے سیاست شناس اور دانشور بھی فرمارہے ہیں کہ علامہ صاحب جیسے بھی ہیں لیکن ایجنڈا تو ان کا ٹھیک ہے ‘ اس لئے ان کا ساتھ دینا چاہئیے ۔ انہیں کون سمجھائے کہ اگر بات صرف ایجنڈے اور اعلان کردہ منشور کی ہو توپھر توپیپلز پارٹی کے منشور میں بھی سب اچھی باتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ نعرے اور دعوے تومیاں نوازشریف کے بھی غلط نہیں ہیں ۔ایجنڈا تو عمران خان کا بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے جو سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا ‘ وہ بھی بہت ساروں کو اپنا ایجنڈا لگا تھا۔ حتیٰ کہ نعرہ اور دعویٰ تو امریکہ کا بھی غلط نہیں ۔ وہ اس نعرے اور دعوے کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرکے افغانستان کو جمہوریت‘ امن اور سلامتی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتا ہے ۔ اس دنیا میں صرف نعروں ‘ دعووں اور ایجنڈوں سے کام نہیں چلتا ۔ جب کسی طرف سے کوئی نعرہ بلند ہوتاہے ‘ جب کوئی بندہ کسی ایجنڈے کو لے کر دعویٰ کرتا ہے تو پھر اس شخصیت کو اس دعوے اور نعرے کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے ۔ پھر ماضی ٹٹولا جاتا ہے اور سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔ علامہ طاہر القادری پچھلے سات سال خاموش رہے تو ہم بھی خاموش رہے ۔ لوگ ان کے خوابوں کو بھی بھول گئے تھے ‘ ان کا ماضی بھی موضوع بحث نہیں بن رہا تھا اور ان کے حال کو بھی نہیں ٹٹولا جارہا تھا لیکن اب جب وہ سب کے ماضی کرید کر‘ سب پر کیچڑ اچھال کر ‘ مخصوص ایجنڈے کے ساتھ ‘ مخصوص نعرہ لگا کر ‘ پراسرار طور پر میدان میں نکلے ہیں تو ہم بھی ان سوالوں کو اٹھانے لگے ہیں جو ان سے متعلق اٹھائے جانے چاہئیں ۔ وہ آئین کے دفعات 62 اور 63 پر عمل درآمد کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن کیا وہ خود ان دفعات کے مقرر کردہ معیارات پر پورا اترتے ہیں ؟۔ وہ انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن خود ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنے آپ کو اہل نہیں بنارہے ہیں ( آئین کی رو سے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے دوہری شہریت کو ترک کرنا ہوتا ہے ) ۔ ان کی سیاسی پارٹی پاکستان عوامی تحریک ہے جبکہ منہاج القرآن این جی او کے طور پر رجسٹرڈ ہے ۔ وہ ایک سیاسی تحریک اٹھارہے ہیں لیکن پاکستان عوامی تحریک کے جھنڈے تلے نہیں بلکہ منہاج القرآن کے جھنڈے تلے ۔ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اصل جمہوریت کو بحال کررہے ہیں لیکن ان کے ادارے اور پارٹی کے اندر ہم نے کبھی انتخاب نہیں دیکھا۔ قوم نہیں جانتی کہ ان کا بحیثیت قائد انتخاب کب اور کس فورم نے کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں زندگی کی قربانی دینے پر آمادہ ہوں لیکن اپنی حفاظت کیلئے تو کروڑوں روپے کے خرچ سے خصوصی کنٹینر تیار کرلیا لیکن اپنے چاہنے والوں کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وہ اور ان کے بیٹے مار چ کے موقع پر اسی طرح شریک ہوسکتے ہیں جس طرح کہ عام کارکن شریک ہوں گے ؟۔ اگر انہیں صرف الیکشن کمیشن کی اصلاح مقصود ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ارشاد حسن خان کی کریڈیبلیٹی ‘ فخرالدین جی ابراہیم سے زیادہ تھی؟ ۔ تب تو علامہ صاحب نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور نہ انتخابی نظام میں اصلاحات کیلئے لانگ مارچ کیا۔ انہوں نے تو پرویز مشرف کے زیرسایہ جسٹس ارشاد حسن خان کے الیکشن کمیشن کے زیراہتمام انتخابات میں حصہ لیا۔ مجھے افسوس علامہ صاحب پر نہیں ‘ ان کے چاہنے والوں پر ہورہا ہے اور میرا سوال ان سے نہیں ان کے چاہنے والوں سے ہے کہ وہ یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتے ؟ ۔ پہلے علامہ صاحب انہیں اپنے خواب سناتے رہے اور وہ سر دھنتے اور دھاڑیں مار مار کرروتے رہے ۔ پھر علامہ صاحب ان خوابوں سے انکاری ہوئے یا مختلف توجیہات پیش کرنے لگے ‘ لیکن یہ لوگ پھر بھی ان کے ساتھ رہے ۔ پھر علامہ صاحب نے عوامی تحریک بنائی اور یہ لوگ اس کے کارکن بن گئے ۔ 1999ء میں میاں نوازشریف کی مخالفت میں علامہ صاحب جی ڈی اے کے فورم کے تحت بے نظیر بھٹو کے بھائی بن گئے اور اسفند یار ولی خان کو خوش کرنے کے لئے لال ٹوپی پہننے لگے لیکن یہ لوگ پھر بھی زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے ۔ پھر علامہ صاحب نے پرویز مشرف کی کشتی میں چھلانگ لگادی اور رسول کریم ﷺ کے ان پروانوں سے ان کیلئے ریفرنڈم میں ووٹ مانگتے رہے ۔ پھر علامہ صاحب اپنے ان چاہنے والوں کو حالات اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود کینیڈا تشریف لے گئے۔ زلزلہ آیا‘ خودکش حملوں سے ملک لرزنے لگا ‘نہ جانے کیا کیا اور قیامتیں ٹوٹیں لیکن علامہ صاحب کینیڈا میں مقیم رہے یا پھر دیگر مغربی ملکوں کے دورے کرتے رہے ۔ اب اچانک علامہ صاحب پاکستان میں وارد ہوئے تو یہ پروانے ان کے استقبال کیلئے مردانہ وار مینار پاکستان جا پہنچے ۔ اب علامہ صاحب ایک مبہم اور مشکوک مشق کی خاطر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ لیکن ان میں سے کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھارہا ۔ اب یہ مظلوم اور قابل رحم لوگ نہیں تو اور کیا ہیں لیکن شاید ان سے بھی بڑے مظلوم اس پاکستان میں موجود ہیں ۔ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈران کرام اور کارکنان ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستا ر ہوں کہ انیس قائم خانی‘ حیدر عباس رضوی ہوں کہ رضاحیدر ‘ مصطفی کمال ہوں کہ فیصل سبزواری ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔ محنت‘ قابلیت‘ قربانی اور قادرالکلامی‘ کسی بھی حوالے سے ان لوگوں کا ثانی نہیں ۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگ ہمہ وقت ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ اوپر سے نیچے تک ہر فرد کارکن ہے اور ہر وقت ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار رہتا ہے ۔ ان لوگوں سے جو تنظیم بنی ہے ‘ ڈسپلن اور نظم و ضبط کے حوالے سے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کی صلاحیتیں کہاں صرف ہورہی ہیں ۔ گزشتہ انتخابات کے بعد ان سے کہا گیا کہ زرداری زندہ باد ‘ چنانچہ سب زرداری کی تعریفیں کرنے لگے ۔ ان سے کہا گیا کہ حکومت میں بھی رہو اور اپوزیشن بھی کرتے رہو ۔ چنانچہ پانچ سال سے یہ لوگ یہ مشکل ڈیوٹی نبھارہے ہیں ۔ کبھی ان سے کہا گیا کہ استعفے دو تو بلاتاخیر سب استعفے لے کر وہاں پہنچ گئے۔ اگلے دن کہا گیا کہ دوبارہ حکومت میں شامل ہوجاؤ تو بلاچوں و چرا شامل ہوگئے ۔ پچھلے چند سالوں کے دوران اطاعت نظم کے تقاضے کے طور پر وہ لیاری گینگ سے بھی لڑے‘ اے این پی سے بھی لڑے ‘ مسلم لیگ (ن) سے بھی لڑے اور تحریک انصاف سے بھی اور طالبان کو بھی للکارا۔ انہیں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کو للکار دو تو بیک آواز سب اسے للکارنے لگے ۔پھر انہیں کہا گیا اب معافی مانگو تو سب باجماعت سپریم کورٹ سے معافی مانگنے لگے ۔ پھر اچانک اس سیکولر اور ترقی پسند جماعت کے ان رہنماؤں کو حکم دیاگیا کہ وہ شیخ الاسلام کی ہم رکابی کے لئے مینار پاکستان حاضر ہوجائیں چنانچہ ڈاکٹر فاروق ستار کی اقتدا میں سب باالتعظیم علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ دل ساتھ نہیں دے رہے تھے لیکن یہ بے چارے پچھلے دو ہفتے ڈاکٹر طاہرالقادری کی تعریفیں کرنے اور لانگ مارچ کے فوائد بیان کرتے رہے ۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ قائد تحریک ڈرون حملہ کریں گے چنانچہ اس ڈرون حملے کی نوعیت اور نشانہ معلوم کرنے کے لئے وہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب باادب ‘ باملاحظہ کھڑے تھے ۔ ڈرون حملہ تو قائداعظم کی قبر پر ہوگیا لیکن اسی خطاب میں اعلان ہوا کہ لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کی جائے گی ۔ ایم کیوایم کے یہ پروانے رات دیر تک جاگتے اور لانگ مارچ میں بھرپورشرکت کے حق میں مختلف ٹی وی چینلز پر آکر دلائل دیتے رہے کہ جمعہ کی صبح لانگ مارچ میں عدم شرکت کا فیصلہ ہوگیا۔ جب میں یہ کالم تحریر کررہا ہوں تو ٹی وی اسکرین پر مجھے ڈاکٹر فاروق ستار ‘ رضاحیدر ‘ مصطفی کمال اور دیگر رہنما پریس کانفرنس کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جس میں وہ لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں ۔ ان سب کے چہروں سے عیاں ہے کہ رات کو نیند پوری نہیں ہوئی۔ آج صبح سویرے تک وہ لانگ مارچ میں شرکت کے حق میں دلائل دیتے رہے اور مجھے یقین ہے کہ آج رات بھی میڈیا ان کو سونے نہیں دے گا ۔وہ مجبور ہوں گے کہ ایک اور رت جگا کرکے مختلف ٹی وی چینلز پر لانگ مارچ میں عدم شرکت کے فیصلے کی وضاحتیں کرتے رہیں۔ اب کیا پاکستان میں ان لوگوں سے بڑھ کر کوئی مظلوم اور قابل رحم مخلوق موجود ہے۔
تازہ ترین