• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیو نیوز کے ہر دل عزیز، پرفیکٹ نیوز اینکر، رضا زیدی کی کچھ کہی، اَن کہی باتیں

عکّاسی:اسرائیل انصاری

موجودہ دَور میں ’’میڈیا‘‘ بالخصوص ’’الیکٹرانک میڈیا‘‘ کو کلیدی، بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اسی سبب اس سے وابستہ اینکر پرسنز کی شہرت بھی محدود نہیں رہتی اور خاص طور پر ان اینکر پرسنز کی، جو اپنے مخصوص لب و لہجے، عمدہ تلفّظ، شستہ و شائستہ انداز،صوتی آہنگ اور دیگر خصوصیات کی بناء پر الگ ہی نظر آئیں۔ ’’جیو نیوز‘‘ سے وابستہ، رضا زیدی کا شمار بھی ایسے ہی اینکر پرسنز میں ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی ‘‘کے لیے اُن سے کی اُن کی نجی اور عوامی زندگی سے متعلق تفصیلی گفتگو کی، جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

جیو نیوز کے ہر دل عزیز، پرفیکٹ نیوز اینکر، رضا زیدی کی کچھ کہی، اَن کہی باتیں
نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: ابتدائی تعلیم و تربیت، خاندان سے متعلق کچھ بتائیں۔ نیز، کتنے بھائی بہن ہیں؟

ج: میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے شہر میرٹھ، جب کہ والدہ صبرینا بتول کا تعلق سیال کوٹ سے ہے۔تقسیمِ ہند کے بعد میرے دادا،سیّد طاہر حسین زیدی خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ہجرت کرکے منڈی بہائو الدین آئے اور وہیں میرے والد صاحب کی ولادت ہوئی، پھر کچھ عرصے بعد وہ ماڈل ٹائون، لاہورمنتقل ہوگئے۔ مَیں لاہور ہی میں پیدا ہوا۔ بچپن، جوانی سب وہیں گزرا۔ لاہور کے بیچوں بیچ واقع ماڈل ٹائون ایک بہت خوب صورت سوسائٹی ہے، مجھے آج بھی اپنے پرانے محلّے کے پُرخلوص لوگ اور گلیاں بہت یاد آتی ہیں، جب اسکول سے آتے ہی ہم تینوں بھائی، سائیکل اٹھاکر محلّے کے دوستوں کے ساتھ گلیوں میں نکل جاتے تھے۔ اگرچہ چند برس قبل ہم وہاں سے شفٹ ہوکر ڈیفنس،لاہورمنتقل ہوگئے ہیں، لیکن جب بھی لاہور جانا ہوتا ہے، پرانے محلّے ضرور جاتا ہوں۔ میرے والد، حسن کامران زیدی طویل عرصے تک ایک نجی ادارے میں ملازمت کے بعد حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ ہم کُل تین بھائی ہیں۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی، حسن مجتبیٰ زیدی اور حسن حمزہ زیدی درس و تدریس کے شعبےسے وابستہ اور شادی شدہ ہیں۔

س: آپ کیسے طالب علم تھے، تعلیم کہاں تک حاصل کی؟

ج: مَیں بہت اچھا تو نہیں، لیکن اچھا طالب علم ضرور تھا۔ ڈویژنل پبلک اسکول، ماڈل ٹائون، لاہور سے میٹرک کے بعد ایف سی کالج سے انٹرمیڈیٹ، اور بیکن ہائوس نیشنل یونی ورسٹی، لاہور سے شعبہ صحافت میں بی اے آنرز کیا۔ یونی ورسٹی میں مجھے شعبہ ابلاغِ عامہ کے معروف اسکالر، مصنّف اور ماہرِتعلیم، ڈاکٹر مہدی حسن سے جرنلزم پڑھنے اور صحافت کےجملہ امور سیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔

س: بچپن میں شرارتی تھے یا سنجیدہ، بچپن کی کوئی دوستی، جو آج تک قائم ہو؟

ج: بچپن میں اس قدر شرارتی تھا کہ ہر بندہ مجھ سے بچتا تھا۔ ہر کسی کو تنگ کرنا، ستانا میری سرشت میں شامل تھا، لیکن جیسے جیسے عُمر کی منازل طے کرتا گیا، سمجھ بوجھ اور مزاج میں سنجیدگی آتی گئی۔تاہم، وہ شرارتی، کھلنڈرا بچّہ اب بھی کہیں میرے اندر موجود ہے۔اور کالج کے زمانے کے دوستوں میں عمیر، شارق علی، جب کہ یونی ورسٹی کے دوستوں میں یاسین امیر، بصیر اکرم اور نایاب بخاری آج بھی میرے اچھے دوست ہیں۔

س: ’’جیو نیوز‘‘میں آمد کس طرح ہوئی؟

ج: مَیں 2010ء سے صحافت کے پیشے سے منسلک ہوں، سات برس رپورٹنگ کے علاوہ ایک سال بہ حیثیت ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ایک نجی چینل میں کام کرنے کے بعدنیوز اینکرنگ کی طرف جانے کا سوچا اور پھر مختلف نیوز چینلز میں بہ طورنیوز اینکر کام بھی کیا۔ اسی دوران جنوری 2017ء میں ’’جیونیوز‘‘ سے آفر آئی، توسب گھر والوں کے متفقہ فیصلے سے فوری چینل جوائن کرلیا کہ بہرحال ’’جیو‘‘ کی ٹکر کا اورکوئی چینل نہیں۔

س:’’جیو‘‘ جوائن کرنےکے بعد ابتدا میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: ’’جیونیوز‘‘ جوائن کرنے کے بعد مجھے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ یہاں کا وسیع سیٹ اپ اور پیشہ ورانہ ماحول دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔دیگر چینلز پر مجھے ایسا ماحول بالکل نہیں ملا۔

س: نیوز اینکرنگ کے علاوہ بھی آپ کی کچھ ذمّے داریاں ہیں؟

ج:جی ہاں، فیلڈ رپورٹنگ، انٹرویوز، اسپیشل رپورٹس کی تیاری کے علاوہ دیگر ہنگامی نوعیت کے کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔

س: ریکارڈنگ کے دوران کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ج: مختلف طرح کے مسائل ہوتے ہیں، مثلاً براہِ راست نشریات میں کسی کو آن ائر لینے سے پہلے ہمیں کچھ سوال بتادیئے جاتے ہیں، لیکن موقع محل کے لحاظ سے کچھ سوالات خود بھی کرنے پڑتے ہیں۔ اس دوران جب پیچھے سے پروڈیوسر بھی کچھ بتانے لگتا ہے، تو اکثر اس قسم کی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک طرف اینکر سوال کررہا ہے، دوسری طرف کان میں پروڈیوسر کی آواز آرہی ہے، تیسری طرف ہمیں شخصیت کے جواب پر بھی توجّہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے، تو ایسے میں ایک ہوشیار، حاضر دماغ اینکر ہی سچویشن کو کنٹرول رکھ سکتا ہے۔

س: زندگی کی پہلی کمائی کب اور کتنی تھی؟ پیساخرچ کرتے وقت سوچتے ہیں؟

ج: انٹرن شپ کے دوران ایک نجی چینل میں کام کیا، تو اس وقت مجھے پانچ ہزار روپے ملے تھے، وہ میرے لیے بڑی خوشی کا لمحہ تھا۔ ویسے تو جب بھی پیسے خرچ کرتا ہوں، تو یقیناً سوچتا ہوں، لیکن گھر والوں، دوست احباب کے لیے کچھ خریدناہو، توذرا فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا ہوں۔

س: اچھا کمالیتے ہیں، تن خواہ والدین کو دیتے ہیں یا خود رکھتے ہیں؟

ج: جی بالکل، اچھا کما لیتا ہوں اور اس کا ایک حصّہ باقاعدگی سے گھر بھیجتا ہوں۔ ساری زندگی والدین ہمارے لیے کرتے ہیں، توجب ہم کمانے کی پوزیشن میں آئیں، تو ہمیں بھی اسی طرح ماں باپ اور گھر والوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

س: کسی اور شعبے میں کام کا موقع ملے، تو کون سا شعبہ اختیار کریں گے؟

ج: اداکاری کے شعبے کو ترجیح دوں گاکہ مجھے اداکاری کرنے کا بے حد شوق ہے۔ چند ڈراموں میں اپنے جوہر دکھا بھی چکاہوں اور کچھ بڑے اداکاروں کے ساتھ بھی کام کا موقع ملاہے۔اس وقت بھی میرا ایک ڈراما ’’سَت رنگ‘‘ آن ائر ہے، جو میں نے تقریباً تین برس قبل کیا تھا۔

س: کس نیوز اینکر/صحافی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟

ج: شروع میں مسعود رضا کے ساتھ کام کیا، ان کا نیوز پڑھنے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا، جب کہ اپنی پھوپھیوں یاسمین واسطی اور ارجمند شاہین کے پی ٹی وی کے پرانے ریکارڈڈ بلیٹنز سُن کر اُن کا لہجہ اپنانے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ صحافیوں میں مظہر عباس اور کامران خان سے بہت متاثر ہوں، اُن کا تجزیہ بہت متوازی اور تحقیقی ہوتا ہے۔

س: آپ کافی سنجیدہ سے نیوز اینکر ہیں، تو کیا یہ سنجیدگی مزاج کا حصّہ ہے؟

ج: جی، جی بالکل، یہ میرے مزاج ہی کا حصّہ ہے۔ حالاں کہ بچپن میں بہت شرارتی تھا، لیکن اب عموماً سنجیدہ ہی رہتا ہوں۔ بس، دوست احباب، گھر والوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرلیتا ہوں۔

س: کسی کام یا شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں، تو لوگ پہچان لیتے ہوں گے، اس موقعے پر کیا ردّعمل ہوتا ہے؟

ج: ایمان داری کی بات ہے کہ شاپنگ کے دوران تو ایسا کبھی نہیں ہوا، ہاں اکثر سفر کے دوران ائرپورٹ پر لوگ پہچان لیتے ہیں،تو خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

س: کوئی ایسی شخصیت جس سے مل کر اچھا لگا ہو، یا پھر کوئی ایسا فرد جس سے ملنے کی خواہش ہو؟

ج:بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ اور اوم پوری جب لاہور آئے، تو میرا بھی اُن سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ان سے مل کر بہت اچھا لگا۔ نصیر الدین شاہ نے تو مجھے اداکاری کی طرف آنے کا مشورہ بھی دیا۔ اسی طرح روبن گھوش اور شبنم سے مل کر بھی بہت اچھا لگا۔ ویسے مجھے بالی وُڈ کے اداکار، عامر خان اور ہالی وُڈ کے ٹام کروز سے ملنے کی تمنّا ہے۔

س: اخبار باقاعدگی سے پڑھتے ہیں؟ کون سا حصّہ سب سے پہلے پڑھتے ہیں اور کیوں؟

ج: فرنٹ ہیڈ لائنز اور بیک پیج سب سے پہلے پڑھتا ہوں۔ ’’دی نیوز‘‘ کا ایڈیٹوریل ضرور پڑھتا ہوں، اس کے بعد کالمزپڑھتا ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے اخبار بینی کا شوق ہے، نیوز اینکرنگ کی طرف آیا، تو کالمز زیادہ پڑھنے لگا۔ حامد میر، سلیم صافی، وسعت اللہ خان کے کالمز ضرور پڑھتا ہوں۔

س: زندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟

ج: یونی ورسٹی کا زمانہ بڑا زبردست اور ہر لحاظ سے یادگار اور ناقابلِ فراموش تھا۔

س:عشق و محبت کا زندگی میں کس حد تک دخل ہے؟ خود کبھی عشق کیا؟

ج: عشق تو لڑکپن، جوانی یا کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن میں نے کوئی ایسا عشق نہیں کیاکہ جس میں بس ڈوب گیا۔بس، یہ ساری کیفیات زندگی کا حصّہ ہوتی ہیں۔

س: شادی کا کب تک ارادہ ہے؟ پسند کی کریں گے یا ارینجڈ؟

ج: جب نصیب میں ہوگی، ہوجائے گی۔ ویسے والدین کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے، وہ اکثر پوچھتے بھی ہیں کہ’’ تمہیں کوئی پسند ہے، تو بتادو، پسند کی شادی میں کوئی برائی نہیں۔‘‘ امید ہے کہ اگلے ایک دو برسوں میں کوئی اچھی لڑکی مل گئی، تو کرلوں گا۔

س: کون سی فلم یا فلمیں ہیں، جو آپ نے کئی بار دیکھیں اور آج بھی انہیں دیکھنا اچھا لگتا ہے؟

ج: مجھے امیتابھ بچن کی فلمیں بہت پسند ہیں، ان کی تقریباً تمام فلمیں دیکھ رکھی ہیں، فلم’’ شعلے‘‘ تو کئی بار دیکھی ہے۔ جب کہ’’ دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ اور’’ رنگ دے بسنتی‘‘ بھی ایسی سدا بہار فلمیں ہیں، جو بار بار دیکھی جاسکتی ہیں۔

س: زندگی میں کسی اور ملک جابسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گے؟

ج: مجھے یورپ بہت پسند ہے۔ اب تک دبئی، لندن، اسکاٹ لینڈ، پیرس، ایمسٹرڈیم، اٹلی سمیت امریکا میں واشنگٹن، نیویارک وغیرہ گھوم چکا ہوں،لیکن یورپین بہت اچھے، خوش اخلاق لگے۔ اگر کہیں اوربسنے کا موقع ملا، تو یقیناً یورپ کے کسی شہر میں رہنا پسند کروں گا۔

س: کھانا پکانے میں دل چسپی ہے یا صرف کھانا کھانے میں؟ کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں یا خود بناسکتے ہیں؟

ج: جب تک لاہور میں رہایش تھی، تو صرف کھانا کھانے میں دل چسپی تھی، لیکن کراچی میں اکیلا ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے میں بھی دل چسپی ہوگئی۔ پہلے تو میں صرف آملیٹ اور شاہی ٹکڑے وغیرہ بنالیا کرتا تھا، لیکن اب ایک جستجو سی ہوگئی ہے، توبڑے شوق سے کچن میں کام کرتااور اپنی پسند کے کھانے بناتا ہوں۔

س: کتب/شاعری سے شغف ہے؟ کس مصنف یا شاعر کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟

ج: میں نے سعادت حسن منٹو، قراۃ العین حیدراور بانو قدسیہ کو خوب پڑھا ہے، جب کہ شاعری میں غالب، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، منیر نیازی، جون ایلیا کو پڑھا۔ بچپن میں ہماری پھوپھو اور تایا گھر میں شعری نشست میں ہم سب بچّوں کو شعر و شاعری سنانے کے بعد سب سے تحت الّلفظ میں سنا کرتے تھے کہ کس کا اندازِ بیاں اچھا ہے اور کون زیادہ اچھے طریقے سے سنا سکتا ہے،تو یہ روایت آج تک قائم ہے، خاندان میں عموماً شادی بیاہ کے موقعے پر جب سب اکٹھے ہوتے ہیں، تو آج بھی اس طرح کی محفلیں ضرور جمتی ہیں۔

جیو نیوز کے ہر دل عزیز، پرفیکٹ نیوز اینکر، رضا زیدی کی کچھ کہی، اَن کہی باتیں
والد، والدہ اور بھائیوں کے ساتھ

س: کس بات پر غصّہ آتا ہے،اور آئے تو ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج: مجھے سب سے زیادہ غصّہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر آتا ہے، لیکن اب زیادہ تر ضبط کرلیتا ہوں، جب تک لاہور میں تھا تو غصّے سے بے قابو ہوجایا کرتا تھا، تاہم کراچی آنے کے بعد غصّہ کنٹرول کرنا سیکھ لیا ہے۔

س: اپنی کون سی عادت سب سے زیادہ پسند ہے؟

ج: لوگوں سے تمیز سے پیش آنا، ان کے لیے کچھ کرنا، کسی بھی انداز میں عوام النّاس کی خدمت کرنا۔

س: تنقید کے کس حد تک قائل ہیں؟ کوئی آپ پر تنقید کرے، تو کیسا لگتا ہے؟

ج: کوئی اگر جائز تنقید کرے، تو اچھا لگتا ہے،لیکن عموماً لوگ تعریف ہی کررہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ایسی تعریف و توصیف کسی کام کی نہیں ہوتی۔ میں تو لوگوں سے خود کہتا ہوں کہ مجھے میری خامیاں بتائیں۔

س:والدین کی محبت کوکن الفاظ میں بیان کریں گے؟ خصوصاً ماں کی محبت کو؟

ج: مجھے اپنے والدین سے بے تحاشا پیار ملا، جو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے میرے لیے جو کیا، مَیںاسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ میں اگرچہ اب کراچی میں مقیم ہوں، لیکن دن میں دو وقت ان سے ضرور بات کرتا ہوں، اور ماں کی محبت تو کبھی بھی کم نہیں ہوسکتی، چار چھے ماہ بعد جب ان سے ملنے کے بعد لاہور سے واپس کراچی آتا ہوں، تو وہ رو پڑتی ہیں۔

س: خود کو کس عمر کا تصور کرتے ہیں؟

ج: تاریخِ پیدایش 25ستمبر 1987ء ہے، اس لحاظ سے اکتیس سال کا ہوچکا ہوں، توخود کو اکتیس سال ہی کا محسوس کرتا ہوں۔ ویسے انسان کو اپنا دل ہمیشہ جوان رکھنا چاہیے، تو یوں سمجھ لیں کہ میں خود کو بیس بائیس سال کا تصوّر کرتا ہوں۔

س: کوئی ایسی یاد، جسے دل سے جدا نہیں کرنا چاہتے؟

ج: میرے چھوٹے بھائی مجتبیٰ زیدی کی حال ہی میں بیٹی پیدا ہوئی، وہ میرے لیے بہت مسّرت کا موقع تھا۔ ہماری فیملی میں پہلی بار ایک ننّھی پری (سیّدہ علیزہ فاطمہ) آئی ہے، تو ہر دَم اُسی کو لیے لیے گھومتاہوں، اُسے اپنے دل سے جدا نہیں کرسکتا۔

س: کبھی کسی خوف، دُکھ اور کرب نے حقیقت کا روپ دھارا ہے؟

ج: جی بالکل، یہ اُس وقت کی بات ہے، جب میں پہلی بار کراچی آیا اور مجھے نئی نئی نوکری ملی تو بہت خوش تھا اور چاہتا تھا کہ فوراً اپنے والدین اور گھر والوں کو بتائوں۔ پھر چوں کہ اچانک کراچی آنے کے سبب اپنے خالو، جن سے میرابڑا قریبی اور گہرا رشتہ تھا، مل کر نہیں آسکا تھا اور ایک روز وہ نماز کے دوران مجھے شدّت سے یاد آئے تو سوچا لاہور جائوں گا، تو سب سے پہلے اُن ہی کے پاس جائوں گا، لیکن بدقسمتی سے دوسرے ہی روز خبر ملی کہ اُن کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ میرے لیے شدید کرب و غم کا لمحہ تھا۔ مَیں فوراً لاہور گیا، لیکن آج تک یہ افسوس دامن گیر ہے کہ اُن سے آخری وقت میں مل نہیں سکا۔

س: اگر موبائل فون زندگی سے نکال دیا جائے تو؟

ج: زندگی بہت آسان اور پُرسکون ہوجائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موبائل فون اب زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ چوں کہ رابطے کا اس سے آسان اور سہل ذریعہ اور کوئی نہیں، توظاہر ہے اسے زندگی سے دور رکھنا بھی آسان نہیں۔

س: موسیقی کا کس حد تک شوق ہے؟

ج: موسیقی کا بہت شوق ہے، کلاسیکل سے لے کر موجودہ دَور کے گانوں تک سب بہت پسند ہیں۔ ایک دَور میں مجھے بانسری بجانے اور سیکھنے کا جنون تھا۔ مختلف قسم کی فلوٹس خرید کے جمع کی ہوئی تھیں اورباقاعدہ کسی استاد سے سیکھنا چاہتا تھا، لیکن موقع ہی نہیں ملا۔

س: گلوکاروں میں کسے سُننا پسند کرتے ہیں؟

ج: مہدی حسن، استاد امانت علی خان، جب کہ اپنی تائی، نیّرہ نور اور اُن کے صاحب زادے جعفر زیدی کے گانے بہت پسند ہیں۔

س: پہلی بار سنیما میں فلم کب دیکھی اور کون سے اداکار اچھے لگتے ہیں؟

ج: پہلی بار اپنے گھر والوں کے ساتھ عدنان سمیع خان اور زیبا بختیار کی فلم ’’سرگم‘‘ دیکھی، جو آج تک یاد ہے اور انگریزی فلم ’’جراسک پارک‘‘ بچپن میں دیکھی تھی، یہ دو فلمیں میں آج تک نہیں بُھولا۔ پاکستانی اداکاروں میں نعمان اعجاز اور فیصل قریشی کے علاوہ ماضی کے اداکار محمد شفیع کی نیچرل اداکاری سے بہت متاثر ہوں۔ جب کہ اداکارائوں میں مرینہ خان، شہناز شیخ اور روبینہ اشرف کی اداکاری بہت پسند ہے۔

س: ای میلز چیک کرتے ہیں، میسجز کا جواب دیتے ہیں؟

ج: جی بالکل، ای میلز باقاعدگی سے چیک کرتا ہوں اور تمام میسجز کا جواب بھی فوری دیتا ہوں۔

س: آپ کے والٹ کی تلاشی لی جائے تو؟

ج: میں والٹ رکھتا ہی نہیں۔

س: شاپنگ کس کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں؟خریداری کے وقت بھائو تائو کرتے ہیں؟

ج: اب تک والدین، بھائیوں کے ساتھ بہت شاپنگ کی ہے، کراچی میں دوستوں کے ساتھ شاپنگ کرتا ہوں اور شاپنگ کے دوران بھائو تائو کے بغیر تو مزہ ہی نہیں آتا۔

س:یہ بتائیے،آپ اچھے دوست ہیں یا آپ کے دوست اچھے ہیں؟

ج: مجھے لگتا ہے کہ میرے دوست اچھے ہیں، کیوں کہ اُن کے ساتھ میری دوستی بہت اچھی اور پائیدار ہے۔

س: سیاست کے بارے میں کیا خیال ہے، کبھی کوئی اہم عہدہ مل جائے، تو پہلا کام کیا کریں گے؟

ج: تعلیم کے فروغ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔ کیوں کہ ملک میں سارے مسائل تعلیم کے انحطاط ہی کے باعث ہیں اور ہر سطح کے مسائل کا حل تعلیم میں مضمر ہے۔

س: کون سے کھیل، کھلاڑی اچھے لگتے ہیں؟

ج: کھیلوں میں بہت زیادہ دل چسپی نہیں۔ ایک زمانے میں کرکٹ کا شوق تھا، وہ بھی دیکھنے کی حد تک۔ ویسے فٹ بال پسند ہے اور کھیلنا بھی چاہتا ہوں۔ برازیل کے رونالڈوکا فین ہوں۔

س: کوئی دعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: حضرت علیؓ کی دعا ’’نادِ علی‘‘ ہر وقت لبوں پر رہتی ہے۔

سب کچھ وَرثے میں ملا

میرا تعلق ایک بھرپورادبی گھرانے سے ہے۔ فنونِ لطیفہ میں اداکاری، گائیکی، مصوّری اور شاعری سب کچھ وَرثے میں ملا۔ پاکستانی فلمی صنعت، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی معروف گلوکارہ نیّرہ نور میری تائی ہیں، اُن کے شوہر یعنی میرے تایا،شہریار زیدی معروف ٹی وی آرٹسٹ اور ان کے صاحب زادے، جعفر زیدی، معروف گلوکار اور کمپوزر ہیں، میرے دوسرے تایا، شاہ نواز زیدی ایک معروف مصور ہیں، وہ گلوکار بھی ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں،اسی طرح مندانہ زیدی اور علی نور سمیت فیملی کے کافی لوگوں کا تعلق شوبز سے ہے، جب کہ میری سات پھوپھیوں میں سےایک، عصمت نعیم سائنٹسٹ اور دو یاسمین واسطی اور ارجمند شاہین ماضی کی پی ٹی وی کی مشہور نیوز کاسٹرزہیں۔

دادا کا سنیما

ہمارے دادا کا فیروز پور روڈ، لاہور میں ’’ارم سنیما‘‘ ہوا کرتا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ میرے گھر والوں، خصوصاً والد صاحب کا فلموں اور فلمی شخصیات سے کافی لگائو رہا۔ وہ ملکہ ترنّم نورجہاں کے بہت بڑے فین بھی ہیں۔اب اگرچہ وہ سنیما نہیں رہا، تاہم والد صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کے عروج کے زمانے میں وہاں کافی ہلچل رہتی تھی۔

والدہ کے پردادا، علّامہ اقبال کے استاد

میری والدہ، صبرینا بتول کا تعلق سیال کوٹ سے ہے۔ اُن کے پردادا، شمس العلماء میر حسن، شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال کے استاد تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب برطانوی حکومت نے علامہ اقبال کو’’ شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازنے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے یہ اعزاز اپنے استادمولانا میر حسن کو تفویض کرنے کی درخواست کے ساتھ فرمایا کہ ’’اس خطاب اور اعزاز کے اصل حق دار میرے شفیق استاد، مولانا میر حسن ہیں، جن کی تعلیم کے سبب میں آج اس مقام تک پہنچا۔‘‘

چھوٹے بھائی، مجتبیٰ زیدی کا اعزاز

میرے چھوٹے بھائی، مجتبیٰ زیدی’’Discovering New Artists‘‘ کے بانی ہیں۔ یہ تنظیم مستحق و ناداراور بے گھر بچّوں کی کفالت کے لیے نہ صرف گراں قدر خدمات انجام دیتی ہے، بلکہ ان میں مصوّری کے ذریعے شعور اجاگر کرنے کے مختلف پروگرام اور مقابلے بھی منعقد کرواتی ہے۔ گزشتہ برس ایک بین الاقوامی اعزاز کے لیے پاکستان سے تین افراد کو منتخب کیا گیا، جن میں میرے بھائی مجتبیٰ زیدی بھی شامل تھے، جنہیں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ (دوم) نے ’’کوئین ینگ لیڈر ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔

تازہ ترین