• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الطاف بھائی کے اس سیاسی ڈرون کا مسکت اور مدلل جواب تو یقینا ڈاکٹر صفدر محمود دیں گے ۔ ویسے ”کیپٹل ٹاک“ میں حامدمیر نے بھی اس مسئلے پر الطاف بھائی سے مناظرے/مباحثے کے لئے خود کو پیش کر دیا لیکن اپنی اور اپنے حلیفِ تازہ شیخ الاسلام کی دوہری شہریت ( عطاء الحق قاسمی کے بقول، دوغلی شہریت) کے جواز میں قائداعظم کا ناروا حوالہ کروڑوں پاکستانیوں کے لئے آزارِ جان بن گیا۔ 1946 میں برصغیر پر انگریز کی حکمرانی تھی ، پاکستان کا وجود ہی نہیں تھا تو قائد اعظم کے پاس پاکستانی پاسپورٹ کہاں سے آتا ؟ باقی رہی 1947 سے 1952 تک پاکستان پر جارج ششم کی بادشاہی اور اس کے بعد 1956 تک ملکہ برطانیہ کے پاکستان کی ملکہ ہونے کی دلیل تو نوزائیدہ مملکت کے اپنے آئین کے نفاذ تک اس کی حیثیت محض علامتی تھی ۔ پاکستان اپنے قیام کے پہلے روز سے اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں آزاد تھا ۔ حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ بھی اس کا داخلی معاملہ تھا۔ بانی پاکستان ، اس مملکت ِ خداداد کی ساورنٹی کے حوالے سے کتنے حساس تھے ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پاک و ہند کا مشترکہ گورنر جنرل قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا(آزاد ہندوستان نے نئے آئین کے نفاذ تک انگریز وائسرے کی یہ پوزیشن قبول کر لی تھی)۔ ملی غیرت اور قومی وقار کے حوالے سے قائد اعظم کی حساسیت کی ایک اور مثال، جارج ششم کے بھائی کی پاکستان آمد پر انگریز سفیر اس درخواست کے ساتھ قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ خود ائیر پورٹ پر اس کا خیر مقدم کریں ۔ قائد اعظم کا جواب تھا ، لیکن اس صورت میں گورنر جنرل آف پاکستان کے بھائی کی لندن آمد پر بادشاہ سلامت کو ان کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ آنا ہو گا۔
ادھر شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کے حوالے سے ”فکر ہر کس بقدر ہمت اوست “ والا معاملہ ہے۔ ماضی میں اس قسم کی کاروائیوں کے پیچھے ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے ۔ کیا اب بھی معاملہ ایسا ہی ہے؟ ایم کیو ایم نے جس شتابی سے اشتراک اور تعاون کا اعلان کیا اور قائد تحریک جس طرح شیخ الا سلام کے چھوٹے بھائی بن گئے، چودھری برادران جس جلدی میں مبارک سلامت کہنے آستانہ شیخ الاسلام پر حاضر ہوئے (اس موقع پر 50 لاکھ روپے نذرانے کی خبر کی انہوں نے تردید کردی ہے ) اس سے یہ خیال راسخ ہوا کہ انتخابات سے تین چار ماہ قبل اس نئے سیاسی کھیل کی سپانسر شپ بھی ”وہیں“سے آئی ہے ۔ کونسل آف نیشنل افیئرز (سی این اے) کے ساتھ شیخ الاسلام کی خصوصی نشست میں یہ بات ہوئی تو انہوں نے لندن سے روزانہ آنے والی ایک دو ٹیلیفون کالز کا ذکر کیا (انہوں نے اسے آف دی ریکارڈ کر دیا تھا) لیکن اگلے روز سیٹھی صاحب نے اپنی ”چڑیا“ کے حوالے سے اور شامی صاحب نے اپنے ذرائع سے یہ راز فاش کر دیا کہ لندن سے آنے والی کال میں جو سوال بہ التزام پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ ”ادھر“ سے کوئی پیغام آیا ؟ کوئی اشارہ ملا؟ اور ”ادھر“ والے اپنے ادارے (ISPR) کے ذریعے لانگ مارچ کے اس کھیل سے اظہارِ لاتعلقی کر چکے ۔ ISPR نے اس خبر کی بھی توثیق کی کہ علامہ صاحب نے لانگ مارچ کی سکیورٹی کے لئے فوج کو باقاعدہ خط لکھا تھا جس پر انہیں متعلقہ وزارت سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ منہاج القرآن والے اس کی تردید کرتے ہیں۔ (1997ء کے عدلیہ بحران میں جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو اسی طرح کا خط لکھا تھا جسے انہوں نے وزارت داخلہ کو بھجوا دیا۔) جنرل کیانی اور ان کے رفقاء نے 18 فروری 2008ء سے شروع ہونے والے جمہوری عمل کے تسلسل کے لئے جس ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا، اس کے مدنظر یہ خیال بے جا نہیں کہ وہ اب بھی اسے ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے لیکن فوج کے بعض خودساختہ ترجمان یا نادان دوست مسلسل یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ اس سب کچھ کے پیچھے وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر والوں کا ہاتھ ہے۔ اعجازالحق کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں سرخ ٹوپی والے ”شیخ الجہاد“ یہ سرگوشیاں کررہے تھے کہ لانگ مارچ کو پنڈی والوں کی سرپرستی حاصل ہے جنہوں نے 5 سال صبر کرکے دیکھ لیا، اب ملک کو بھی تو بچانا ہے۔ ادھر لاہور کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر جو شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کی پرجوش حمایت کو شاید اپنا توشہٴ آخرت سمجھتے ہیں، ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ اس لانگ مارچ کا سپانسر بیرون ملک نہیں، ملک کے اندر ہے انہیں یہاں جی ایچ کیو کا نام لینے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ فرید پراچہ نے گزشتہ روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں بڑی دلچسپ بات کہی، یہاں جمہوریت کی اے بی سی اس لئے ایکس وائی زیڈ تک نہیں پہنچ پاتی کہ درمیان میں جی ایچ کیو آ جاتا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ عساکر پاکستان اور ان کی قیادت آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کے تسلسل کے لئے اپنی پانچ سالہ کمٹمنٹ کو جاری رکھے گی اس میں ماضی کے ماورائے آئین اقدامات کے نتائج سے حاصل ہونے والے سبق کا دخل بھی ہے اور ملک کے داخل و خارجی حالات کا جبر بھی۔ اب ملک کی جمہوری قوتیں جن میں سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ہیں، سول سوسائٹی اور وکلاء برادری بھی اور سب سے بڑھ کر آزاد عدلیہ اور مستعد میڈیا، جمہوریت کے تحفظ کے لئے سربکف ہیں۔ وہ دور لد چکا جب کسی سیاسی حکومت کے خلاف غیرجمہوری اقدام پر دیگر جماعتیں خیرمقدمی بیانات جاری کرتیں اور مٹھائیاں بانٹتی تھیں۔
اب تو جمہوری نظام کے خلاف کسی اقدام کی مزاحمت کے لئے پیش بندی کی جارہی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں جہاں نوازشریف، محموداچکزئی اور حاصل بزنجو سمیت ملک کی قومی و علاقائی جماعتوں کی بھرپور نمائندگی تھی اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر سے وکلاء کی منتخب نمائندہ قیادت بھی، جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا بھرپور اعادہ کیا گیا۔ نوازشریف کی اس بات پر پورا ہال تالیوں سے گونج کہ جمہوریت کا تسلسل ہی ملک کے تمام مسائل کا حل ہے تاہم انہیں اس پر افسوس تھا کہ پانچ سالہ مدت پوری کرنے والے، پاکستانی عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترے۔ انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسئلے کا حل بھی وہاں کی حقیقی منتخب قیادت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ یہی بات اس ہفتے الطاف حسن قریشی کے پائنا کے زیراہتمام (پنجاب یونیورسٹی کے اشتراک سے) منعقدہ بلوچستان پر دو روزہ قومی کانفرنس میں بھی کہی گئی، بلوچستان کی حقیقی قیادت ہی بلوچستان میں آگ کو بجھا سکتی ہے۔ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی نیشنلسٹ پارٹیوں کو اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ بائیکاٹ کے نتیجے میں بلوچستان میں جعلی قیادت مسلط ہوئی جس سے مسئلہ مزید بگڑ گیا۔ کانفرنس کے مندوبین کے اعزاز میں وزیراعلیٰ پنجاب کے عشائیے میں یہی بات ہوئی تو خواجہ سعد رفیق نے یاد دلایا کہ نوازشریف نے تو ماڈل ٹاؤن کے اسی دفتر میں اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہنے کی بجائے انتخابات میں شرکت پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ اِدھر چیف جسٹس آف پاکستان اسی ہفتے لاہور میں وکلاء کے ایک بڑے اجتماع سے اپنے خطاب میں آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے عدلیہ کی لازوال کمٹمنٹ کا ایک بار پھر اعادہ کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں ہوگا۔ حکومت وہی کریں گے جو منتخب ہوکر آئیں گے (ٹیکنوکریٹس کی اڑھائی تین سالہ حکومت نہیں) سی این اے کے ساتھ خصوصی نشست میں شیخ الاسلام کو سب سے زیادہ مایوسی عمران خان کے حوالے سے تھی کہ جن کے سونامی کی بنیاد ہی تبدیلی کا نعرہ ہے۔ وہ بھی تو اسی نعرے کے ساتھ کینیڈا سے وارد ہوئے ہیں پھر سونامی خاں ان کا ہمرکاب کیوں نہیں۔ اس پر ایک اخبار نویس نے توجہ دلائی کہ ہو سکتا ہے اس کا سبب کپتان کی انا ہو۔ شیخ الاسلام خود ان سے رابطہ کرتے تو شاید نتیجہ مختلف نکلتا۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ انہوں نے کپتان سے رابطے کی بہت کوشش کی، ایس ایم ایس بھی کئے، ان کے لئے پیغام بھی چھوڑا لیکن ادھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ شاہ محمود قریشی سے رابطہ ہوگیا تھا، ان کے ساتھ مفصل بات ہوئی، انہوں نے کپتان سے بات کرانے کی ذمہ داری لے لی اور پھر وہ بھی دستیاب نہ ہوئے۔ تحریک انصاف نے گزشتہ روز اپنے اعلیٰ سطحی اجلاس میں لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے حق میں فیصلے کا اعلان کیا۔ کپتان کے بقول نگران حکومت کے اعلان سے قبل اس طرح کے کسی لانگ مارچ کا کوئی جواز نہیں۔ سنا ہے، کپتان پھر تذبذب کا شکار ہوگیا ہے۔ شیخ الاسلام ایک بڑا لانگ مارچ نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو راولپنڈی میں کپتان کی طرف سے اس کے استقبال کا امکان موجود ہے۔
تازہ ترین