• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈائجسٹ والے ڈراما لکھنے لگ جائیں، تو میری کیا ضرورت؟ انور مقصود

 آٹھ برس ہوگئے، ٹیلی ویژن کے لیے نہیں لکھا، جب ڈائجسٹ میں لکھنے والے ڈراما لکھنے لگ جائیں گے، تو میری کیا ضرورت ہے۔


ملک کے ممتاز ڈراما نگار اور دانش ور انور مقصود نے کہا ہے کہ حکومت صرف ان بچیوں کا خیال رکھتی ہے، جن کی شکلیں اچھی ہوتی ہیں۔ لیکن ضرورت مند آرٹسٹوں کا بھی خیال رکھا جائے۔

میرا نیا ڈراما 14 اگست کو ’’ نیاپاکستان‘‘ کے نام سے ہوگا، اس کے ڈائریکٹر دارو محمود ہوں گے۔ ’’ناچ نہ جانے‘‘ کا غیر معمولی رسپانس آرہا ہے۔8 برس ہوگئے، ٹیلی ویژن کے لیے نہیں لکھا، جب ڈائجسٹ میں لکھنے والے ڈراما لکھنے لگ جائیں گے، تو میری کیا ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو آرٹس کونسل میں میڈیا اور جنگ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر احمد شاہ اور دارو محمود بھی موجود تھے۔انور مقصود کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈرامے’’ ناچ نہ جانے‘‘ کا بہت غیر معمولی رسپانس آیا ہے، اب یہ ڈراما ساوتھ افریقا، امریکا، برطانیہ اور دبئی میں بھی پیش کیا جائے گا۔

اس ڈرامے کی آمدنی سے ایسے فن کاروں، موسیقاروں،سازندوں اور مصوروں کی مدد کی جائے گی، جن کے پاس ان دنوں کام نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ ہمارے بعد حکومت کو بھی ان کا خیال آجائے۔

ایک سوال کے جواب میں انور مقصود نے بتایا کہ ’’ناچ نہ جانے‘‘ بہت جلد عام لوگوں تک بھی پہنچائیں گے۔ابھی ٹکٹ اس لیے مہنگے ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم ضرورت مند فن کاروں میں تقسیم کی جائے گی۔

’’1983 میں ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ لکھا تھا۔ معین اختر، ارشد محمود، بشریٰ انصاری، سلیم ناصر اور دوسرے فن کاروں نے شان دار پُرفارمنس دی تھی۔ ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میرا سب سے پیارا اور لاڈلا بچہ ہے۔

تھیٹر پر پیش کیا، تو زبردست رسپانس آیا۔ ’’ناچ نہ جانے‘‘ کی کاسٹ میں شامل نئے فن کاروں نے میرا دل جیت لیا ہے۔ جتنی محنت ان فن کاروں نے ڈرامے کی کام یابی کے لیے کی ہے، اگر ہمارے صوبائی اور وفاقی وزراء کر لیں تو ہمارے ملک کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔

میری عمر 75برس ہو چکی ہے۔ پاکستان میں تو 45 اور 50 برس کی عمر میں لوگ جا رہے ہیں۔ نئی نسل کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں اردو زبان کی جو حالت بنا دی گئی ہے، اس پر بہت افسوس ہوتا ہے۔

کراچی میں جہاں کتابوں کی درجنوں دُکانیں ہوتی تھیں، اب وہاں پرانی جینز اور جیکٹس فروخت ہوتی ہیں۔ کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔ ایک زمانے میں فیض صاحب کی کتاب سوا دو روپے میں مل جاتی تھی۔ اب کتابیں قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔

جن لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور جن کے پاس پیسے ہیں، انہیں کتابوں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔مجھے امید ہے کہ ’’پونے چودہ اگست‘‘ کی طرح ’’نیا پاکستان‘‘ ڈراما بھی غیر معمولی کام یابی حاصل کرے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین