• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک کی ششماہی رپورٹ نے قلعی کھول دی ہے۔ مجموعی قومی پیداوار ہدف سے تقریباً آدھی(3.5 فیصد)، مہنگائی گزشتہ چار برسوں میں دُگنی(8.2 فیصد)، محصولات کی وصولی میں بڑی کمی(331ارب روپے)، قرض کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات میں اضافہ اور ترقیاتی پروگرام کے لئے نصف سے زیادہ کٹوتی، روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری اب 143روپے سے بھی کہیں آگے رواں۔ پھر بھی بجٹ خسارا بڑھتا ہوا۔ دوستوں کی گیارہ بارہ ارب ڈالرز کی سودی خیرات کے باوجود توازنِ ادائیگی خستہ حال اور 3300ارب روپے کے مزید قرضے۔ پھر بھی حکمران اشرافیہ کے چار بڑے حصہ دار سول و ملٹری نوکر شاہی، سرمایہ دار اور زمیندار) اپنی استحصالی ہٹ پہ قائم اور بلکتے عوام پہ مزید بوجھ ڈالنے پہ کمربستہ۔ تنخواہیں اور مزدوری وہی پرانی لیکن روپے کی بے قدری سے قوتِ خرید ایک سال میں 38فیصد کم۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں، لیکن تیل، گیس کی قیمتوں کا بم پھر بھی عوام پہ گرا دیا گیا۔ گیس کی قیمت 140فیصد بڑھانے کی تیاری ہے۔ اور پھر سوچئے مہنگائی کیا اودھم مچانے والی ہے۔ تمام تر آسائشوں اور رعایتوں کے باوجود صنعتی پیداوار میں اضافے کی نصف کمی اور زراعت کی خبریں اچھی نہیں۔ اوپر سے آئی ایم ایف چھریاں لیے تیار۔ وہ کیوں مفت خوروں کی معیشت کے خساروں، غیر پیداواری اللے تللوں یا پھر کرایہ (حرام) خوروں کے بے انت شکموں کو بھرے۔ چونکہ چار مفت خوروں پہ مشتمل حکمران اشرافیہ اپنی مالیاتی مشکیں کسنے سے رہی یا پھر حقیقی اصلاحات پر تیار نہیں۔ لہٰذا بیرونی و اندرونی خسارے اُن غریبوں سے ہی پورے کیے جائیں گے، جن کے 43فیصد بچے بھوک کے ہاتھوں سوکھے کا شکار ہیں یا ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج۔ جن کے بچوں کے لئے اسکول ہیں نہ اسپتال اور جن کی مائیں مسلسل زچگیوں اور کم خوراکی کے ہاتھوں مری جاتی ہیں۔ ہائے، یہ ہے نیا پاکستان؟ یا پھر قیامت کی سونامی!

اب کریں تو کیا؟ آٹھ ماہ یا تو کرپشن کے مبینہ اربوں ڈالرز بازیاب کرانے کی شیخیوں میں گزر گئے یا پھر گزری حکومتوں کی نااہلیوں کو کوسنے کے علاوہ کوئی مشغلہ نہیں۔ معاشی حقائق کی روشنی میں سابقہ حکومت پہ بحران کی تمام تر ذمہ داری ڈالنے کا بہانہ بھی ماضی کی طرح کم بوسیدہ نہیں۔ گزشتہ حکومت ترقی کی 5.8فیصد شرح چھوڑ کر گئی تھی اور مہنگائی بھی اُس سے آدھی تھی جتنی آج ہے۔ جتنا قرض پہلے لیا جاتا تھا، اُس سے کہیں زیادہ آج دھڑا دھڑ لیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم ایک بھکاری معیشت ہو گئے ہیں۔ نئے پاکستان کا خواب دکھانے والوں کے معاشی نظریات شیخ چلی کے خوابوں کی طرح تھے۔ لُٹی ہوئی دولت واپس آنی تھی نہ اُس سے ملک کا کاروبار چلنے والا تھا، نہ بڑھکوں اور نمائشی کفایت کے ڈھونگوں سے کاروبارِ مملکت چلنے والا تھا۔ ٹیکس اکٹھا کر کے دکھانے والوں نے ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ ٹیکس خسارہ کر کے دکھا دیا ہے۔ اب بے نامی اکاؤنٹس کا اسٹنٹ ہے، جو ایک موثر ٹیکس پالیسی کا قطعی متبادل نہیں۔ اوپر سے شیخ چلیوں کی بڑھکیں ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں۔ پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں اور دس ارب درخت اور آخر میں مرغبانی اور بچھڑوں کی افزودگی کی لن ترانیاں۔ لے دے کے نیا پاکستان کے ڈھنڈورچیوں کے پاس اگر کچھ رہ جاتا ہے وہ ہے کرپشن کی لعن طعن۔ بھئی آپ اتنے ہی امین اور صالح ہیں تو ذرا بتایئے کہ سوائے گالی گلوچ کہ آپ نے اس کے خاتمے کے لیے کیا کیا ہے؟ احتساب کے نظام اور قانون میں آپ نے کیا موثر تبدیلی کی۔ گورننس کے کسی بھی میدان میں آپ نے کیا اصلاح کی ۔

اب خالی ہاتھ ملتی حکومت کرے تو کیا کرے؟ جو کرنا چاہئے جس کا کہ تقاضا ہے وہ یہ کرنے سے رہی یا پھر وہ اس کے گمان تک میں نہیں۔ اب نیا منتر پڑھا جا رہا ہے وہ ہے غریبی مکاؤ کا۔ خوش آمدید! لیکن آپ یہاں بھی جعلسازی سے کام لے رہے ہیں جیسا کہ آپ کا اپنا انتخاب ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس نے 55لاکھ خاندانوں کی بزرگ خواتین کے ہاتھ میں کچھ معمولی رقم دے کر ایک موثر پروگرام کا آغاز کیا تھا، آپ اب اُس کی درگت بنانے پر لگ گئے ہیں۔ اس کے لیے نام بدلنے کی ضرورت ہے نہ ایک اور وزارت کی تشکیل کا خرچہ بڑھانے کی حماقت کی ضرورت۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو شاہراہ بنایئے، اس کے ذریعے صحت، تعلیم اور روزگار کے وسیلوں کی اضافی سہولیات جوڑ دیجئے اور اس کا دائرۂ کار غربت کی لکیر تلے سسکتے تمام لوگوں تک بڑھا دیجئے۔ قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کروایئے، دفاعی اخراجات کم کیجئے۔ اٹھارویں ترمیم اور ساتویں مالیاتی ایوارڈ پر صوبوں کو ناراض کرنے کی بجائے، بھاری بھر کم وفاقی حکومت کو ہلکا کیجئے۔ اور پیداواری بجٹ کو انسانی ذرائع کی ترقی، صحت و تعلیم، فنی تربیت، رہائشی سہولتوں اور ماحولیات کی بہتری کے لیے استعمال کیجئے۔ رہی اداراتی و انتظامی اصلاحات تو اس پہ کوئی خرچہ ہے نہ بڑی افسرشاہانہ جستجو کی ضرورت۔ دُنیا بھر میں اچھی حکمرانی اور کاروباری سہولت و آسانی کے آزمودہ نسخے موجود ہیں اور خود ہماری بیوروکریسی کی مقفل الماریوں میں ہر طرح کی انتظامی و عدالتی اور پولیس اصلاحات کی ضخیم رپورٹوں کو دھول چاٹ رہی ہے۔ اب تک تو آپ کی ٹاسک فورسوں کو یہ سب کچھ کر لینا چاہئے تھا، نہ جانے وہ کہاں دھت پڑی ہیں۔ رہی ٹیکسوں کی اصلاحات۔ اس کے بھی اُصول ہیں کہ ہر آمدنی یا نفع پر بلااستثنیٰ ٹیکس لگے۔ ہماری زراعت جی ڈی پی کا 20فیصد ہے جبکہ اس سے ٹیکس ایک فیصد کا چوتھائی بھی نہیں ملتا (0.22فیصد)۔ یہی حالت تعمیراتی اور تجارتی شعبوں کی ہے، جو ٹیکس دینے پہ راضی نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں کوئی کاروباری حرکت چھپائی نہیں جا سکتی، تاآنکہ گھر کے رکھوالے چور کے ساتھ نہ ملے ہوں۔ یہ کام بھی ہونے سے رہا کہ آپ کی اپنی کابینہ ٹیکس سے ہمیشہ سے محفوظ رہنے والوں کی آماجگاہ ہے۔ آپ سمیت اربوں پتی وزیر ہزاروں نہیں تو لاکھوں میں ٹیکس دیتے ہیں اور اس حمام میں صرف آپ ہی نہیں ہماری حزبِ اختلاف کے بڑے بڑے رہنما بھی شامل ہیں۔ ایسے میں کوئی بڑے افسروں سے پوچھنے سے رہا کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی کس میں جرأت۔ لہٰذا نئے پاکستان والوں کو پُرانے پاکستان کے منصوبوں کا دوبارہ افتتاح کرتے ہوئے، پرانے پاکستان پہ ہی انحصار کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ بھی اُسی 500 خاندانوں کی اشرافیہ ہی کی آل اولاد ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والے یہ ہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والے کہاں ہیں؟ ہیں بھی، یا نہیں؟

تازہ ترین