• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل جب جمعۃ المبارک کے روز پورا نیوزی لینڈ اذانوں کی آواز سے گونج رہا تھا، ہر جگہ اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں اور نیوزی لینڈ میں مقیم مسلمان اتحاد کا مظاہرہ کر کے دنیا کو باہمی اخوت و بھائی چارے کا مثبت پیغام دے رہے تھے، عین اُسی روز پاکستان میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے نے دنیا کو اِس کے برعکس پیغام دیا کہ پاکستان کے مسلمان مختلف فرقوں اور دھڑے بندیوں میں تقسیم ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے مفتی تقی عثمانی حملے میں محفوظ رہے۔ 74سالہ مفتی تقی عثمانی بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ آپ کا شمار جامعہ دارالعلوم کراچی کے بانیوں میں ہوتا ہے، جہاں ہزاروں طالبعلم دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ گو کہ مفتی تقی عثمانی کو اردو کے علاوہ عربی، انگریزی اور ہسپانوی (اسپینش) زبان پر بھی عبور حاصل ہے اور آپ ڈیڑھ سو کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں۔ مفتی تقی عثمانی مذہبی اسکالر ہونے کے علاوہ اسلامک بینکنگ پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ وہ 17سال تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعہ اپیلٹ بنچ کے جج رہ چکے ہیں۔ 

مفتی تقی عثمانی نے پاکستان میں اسلامک بینکنگ متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین ہونے کے علاوہ میزان اسلامک بینک سمیت کئی اسلامک فنڈز کے بورڈ پر فائز ہیں جبکہ اسلامک بینکنگ میں اُن کے وسیع تجربے کی بنا پر کئی اسلامی ممالک اُن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جہاں اُنہیں اسلامک بینکنگ پر مشاورت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے اور وہ اِن ممالک کے شریعہ بورڈ کے اہم رکن ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُنہیں ورلڈ اکنامک فورم میں اسلامک بینکنگ کے موضوع پر خطاب کیلئے خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے۔

میں مفتی تقی عثمانی سے بہت عقیدت رکھتا ہوں اور اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ وہ اکثر و بیشتر مراکش تشریف لے جاتے ہیں، جہاں وہ غیر سودی بینکاری نظام رائج کرانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اِس طرح میری اُن سے اکثر ملاقات رہتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور اُن کے صاحبزادے عمران اشرف عثمانی مراکش اسلامک بینکنگ نظام کے بورڈ پر بھی ہیں۔ میں نے جب مفتی تقی عثمانی پر حملے کی خبر سنی تو خیریت دریافت کرنے دارالعلوم کراچی میں واقع اُن کی رہائش گاہ پہنچا۔ 56ایکڑ رقبے پر پھیلا جامعہ دارالعلوم کراچی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جس کی بنیاد 1951میں کراچی کے علاقے کورنگی میں رکھی گئی۔ دارالعلوم کراچی میں 10ہزار سے زائد طالبعلم دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دارالعلوم میں واقع مسجد جہاں مجھے نماز ظہر پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، تعمیراتی حسن کا شاہکار ہے، جس کے ہال میں کوئی پلر نہیں اور یہاں بیک وقت 30ہزار سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد مفتی تقی عثمانی کی رہائش گاہ پر اُن سے ملاقات ہوئی، جہاں انہوں نے گلے لگاکر میرا استقبال کیا۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی وہ بہت پُرسکون تھے، میں نے اُن کے چہرے پر کسی قسم کا خوف محسوس نہ کیا۔ انہوں نے واقعہ کے بارے میں بتایا کہ ’’میرے بالکل قریب گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی مگر اللہ نے اس قاتلانہ حملے میں مجھے، میری اہلیہ اور پوتے کو محفوظ رکھا‘‘۔ میری موجودگی میں مفتی تقی عثمانی کو سعودی عرب، ترکی، امریکہ اور دیگر ممالک سے مذہبی اسکالرز اور اہم شخصیات کی، اُن کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ٹیلیفون کالز موصول ہوتی رہیں۔ دوران ملاقات ان کے دونوں صاحبزادے بھی موجود تھے۔ اس موقع پر مفتی تقی عثمانی کے ایک قریبی دوست نے اُنہیں مشورہ دیا کہ ’’آپ بلٹ پروف گاڑی استعمال کریں‘‘، مگر انہوں نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا کہ ’’میں اِس بات پریقین رکھتا ہوں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے‘‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مفتی تقی عثمانی پر ہونے والا حملہ شرپسندوں کی سازش ہے۔ حملہ آوروں نے جس طرح مفتی تقی عثمانی کی گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ کی، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حملہ آور پیشہ ور قاتل تھے جن کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دے کر پاکستان بالخصوص کراچی کا امن تباہ کرنا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کو پورے عالم اسلام میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر اور مسلک کے ماننے والوں میں یکساں مقبول ہیں۔ اُن پر حملے کے بعد پاکستانیوں کو یہ معلوم ہوا کہ اُن کے شاگردوں میں مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے امام اور علمائے کرام بھی شامل ہیں۔ مفتی تقی عثمانی پر ایسے وقت میں حملہ کیا گیا، جب پوری قوم ’’یوم پاکستان‘‘ کی تیاریوں میں مصروف تھی اور ’’یوم پاکستان‘‘ کی تقریب میں شرکت کیلئے ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد پاکستان تشریف لاچکے تھے جبکہ تقریب میں چین سمیت کئی ممالک کے فوجی دستے بھی حصہ لے رہے تھے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ممکنہ طور پر قاتلانہ حملے کے پیچھے دشمن ملک کی سازش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ حملے میں ملوث عناصر کو جلد ازجلد گرفتار کر کے کڑی سزا دی جائے اور مفتی تقی عثمانی و دیگر علما کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

تازہ ترین