• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاہر القادری صاحب کے جلوس بے تماشا کے اسلام آباد پہنچنے کا وقت آن پہنچا۔ یہ بے نامی بیوپار ہے۔ یہ لشکر جن کمین گاہوں کا پرچم لے کر روانہ ہوا ہے ان کے چہرے سرجلوس موجود نہیں ہیں۔قادری صاحب جن مورچوں پر یلغار کا اعلان کر رہے ہیں ان کا محاصرہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس طر ح کے ہنگاموں کا کیف و کم ہمارے لیے نیا نہیں۔ ان کا مقصد ہمارے ہی خیمے کی طناب کاٹنا ہوتا ہے۔ خطابت کے بڑھتے گھٹتے اور بدلتے اعلانات کے پہاڑ سے جو نعرہ برآمد ہوا ہے وہ تبدیلی کا ہے۔ یہ تبدیلی سے شیفتگی بھی عجب ہے۔ مسلم لیگ نواز بھی تبدیلی چاہتی ہے، عمران خان بھی تبدیلی کے متمنی ہیں، جماعت اسلامی نے تو سات عشروں سے تبدیلی کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ الطاف حسین بھی جاگیردارانہ نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ پہاڑوں میں مقیم ہمارے مہربان طالبان تو سرے سے آئین اور جمہوریت ہی کا دھڑن تختہ کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے جملہ بزرجمہر بھی تبدیلی کے لیے اتاؤلے ہو رہے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ان سب مہربانوں کے نزدیک تبدیلی کا مفہوم ایک ہی ہو لیکن تبدیلی کے اس نعرے کا تجزیہ کرنے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے۔
کوئی پچیس برس پہلے پاک افغان تعلقات آج ہی کی طرح مخاصمانہ ہمسائیگی پر مبنی تھے۔ کوئی تیس لاکھ افغان سرحد کے اس طرف خیمہ بستیوں میں سر چھپائے ہوئے تھے۔ ادھر پاکستان کی حکومت سے ناخوش چند ہزار افراد افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ افغانستان میں جلاوطن پاکستانیوں میں سے ایک صاحب کابل کے قصر صدارت میں جاگزیں تھے۔ نوجوانی میں بائیں بازو کی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ ملک بھر کی جامعات میں ان کی تصویروں کے پوسٹر گاہے گاہے نمودار ہوتے تھے جنہیں صالح طالب علم باقاعدگی کے ساتھ نوچتے رہتے تھے۔ ہمارے ممدوح افغانستان میں اپنے حقیقی نام کی بجائے اکبر خان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ طویل جلاوطنی میں عمر بڑھتی جا رہی تھی۔ انہیں خیال آیا کہ لیلائے وطن کے گیسو سنوارنے کے ساتھ گھر بسانے کی بھی کچھ فکر کرنی چاہیے۔ نظر انتخاب افغانستان کے صدر نجیب اللہ کے گھرانے کی ایک خوش خصال خاتون پر ٹھہری۔ طے پایا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ پارٹی کے دو ایک بزرگ رہنماؤں کے ہمراہ مذکورہ خاتون کے والد کی خدمت میں پیش ہوں اور ان سے اکبر خان صاحب کو اپنی فرزندی میں قبول فرمانے کی درخواست کریں۔ چنانچہ اشتراکی زبان و بیان کے یہ شناور اس بزرگ پختون کی خدمت میں پیش ہوئے۔ اکبر خان صاحب بھی موجود تھے اور حسب مراتب وفد کی کرسیوں کے پیچھے دست بستہ ایستادہ تھے۔ وفد کے سربراہ ڈاکٹر نجیب اللہ نے گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح کیا۔ ”اکبر خان پارٹی کا آزمودہ کارکن ہے۔ اکبر خان نے مدتوں قید و بند ، تشدد اور جلاوطنی کی صعوبتیں اٹھائی ہیں۔ اکبر خان پارٹی نظریات میں گہرا درک رکھتا ہے۔ اکبر خان فکری امور ہی نہیں سمجھتا، تنظیمی معاملات میں بھی رہنما صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اکبر خان نے غیر ممالک سے اعلیٰ مارکسی تعلیم پائی ہے۔ اکبر خان مارکسی اخلاقیات کا عمدہ نمونہ ہے…“
روایتی کمیونسٹ رہنماؤں کی طرح ڈاکٹر نجیب کا آموختہ ٹھہرے ہوئے لب و لہجے میں کسی جذباتی اتار چڑھاؤ کے بغیر جاری تھا کہ خاتون کے ضعیف والد نے جھنجھلا کر ان کی بات کاٹی اور ایک سیدھے سادھے پختون کی طرح ایک ایسا سوال کیا کہ نظریاتی وفد سمیت اکبر خاں بھی بغلیں جھانکنے لگے۔ ”خو ،یہ تمہارا اکبر خان چاہتا کیا ہے؟“
تو صاحب پہلا سوال تو یہی ہے کہ یہ جملہ اصحاب آخر کونسی متعین تبدیلی چاہتے ہیں؟ ہالی ووڈ کی ایک کلاسک فلم ساؤتھ پیسفک (South Pacific) کے ایک کردار کے مطابق ”یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ کس چیز کے خلاف ہیں ، ہمارا سوال تو یہ ہے کہ آپ کس نصب العین کے حامی ہیں؟“ تسلیم کہ انہیں ملک عزیز میں بدعنوانی، مہنگائی، غربت اور امن و امان کی موجودہ صورت حال قبول نہیں لیکن بنیادی سوال تو یہ ہے کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے حکمت عملی کیا ہے۔ ہمارے ملک کو بنیادی طور پر تین شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ملکی معیشت کو قرضوں اور امداد کی بجائے پیداوار اور تجارت پر استوار کرنا ہے۔ اسی صورت میں عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ معیشت میں اس تبدیلی کے لیے خارجہ پالیسی کو ایسے خطوط پر تشکیل دینا پڑے گا جس سے دنیا ہمیں مشکلات کا منبع سمجھنے کی بجائے ایک ایسا ملک سمجھے جس کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے۔جس کے ساتھ تجارت ایک بڑی منڈی تک رسائی کے مترادف ہوں اور جہاں سرمایہ کاری کرنا محفوظ خیال کیا جاتا ہو۔ محض امریکا یا کسی دوسرے ملک سے نام نہاد محکومی کا رشتہ ختم کرنا خارجہ پالیسی کی قابل عمل بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کی راہیں بھی تو تراشنا ہیں ۔ پاکستان کی عالمی تنہائی تو ان قوتوں کا ایجنڈا ہے جوموجودہ آئینی ، قانونی ، سیاسی اور سماجی بندوبست کو منہدم کر کے اپنا تصور عالم مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ معیشت اور خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے لیے ہمیں اپنے سماجی ڈھانچوں پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایسا ملک معاشی ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا جہاں عورتوں کو فعال افرادی قوت کا حصہ نہ سمجھا جاتا ہو۔ جہاں امتیازی قوانین موجود ہوں۔جہاں براہ راست ٹیکس ادا کرنے کی ثقافت موجود نہ ہو۔ جہاں نظام عدل سمیت ریاستی اداروں میں بدعنوانی عام ہو۔ جہاں شہریوں کی نجی آزادیوں اور بنیادی حقوق کا تحفظ نہ کیا جاتا ہو۔ تبدیلی سے ہمارا شغف نیا نہیں۔ ہم نے بہت پہلے اس دعوے کو حرز جاں بنا لیا تھا کہ ہم اپنی طبیعت میں خاص ہیں۔ سو ہمیں اب پہاڑ پر چڑھنا ہے یا ڈھلان میں اترنا ہے، سیدھی سڑک پر چلنا ہمارے شایان شان نہیں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مقبولیت پسند سیاست متعین بات نہیں کرتی۔فوری مقبولیت کے خواہش مند سیاستدان راتوں رات مسائل حل کرنے کی نوید تو دیتے ہیں لیکن مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اور مشکل اقدامات کی نشاندہی نہیں کرتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ذاتی اہلیت اور نیک نیتی پر اعتماد کیا جائے جبکہ قوموں کی تعمیر میں جمہوری مشاورت کے ذریعے اجتماعی قومی فراست کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ نعروں کی مدد سے عوام میں جوش و خروش تو پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن نعروں کا انجام مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جمہوری عمل بذات خود تبدیلی کی ضمانت دیتا ہے۔ دستور پسندی اور جمہوریت سے ہٹ کر تبدیلی کے جو بھی نسخے تجویز کیے جاتے ہیں ان سے ہمارے خواب نیم روز پورے نہیں ہو سکتے۔ البتہ ان سے ریاست اور معاشرت کی اس تباہی کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے جس کا نام لے کر تبدیلی کی دہائی دی جاتی ہے۔
تازہ ترین