• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو  پاکستان میں بے شمار یادگار عمارتیں موجود ہیں ، جو دیکھنے والوں کی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں ۔ ان میں کئی تاریخی عمارتیں شامل ہیں جو ملک کے مختلف شہروں میں واقع ہیں۔

وزیر مینشن، سادہ مگر پُروقار

پیلے پتھروں اور لال جالیوں والا سادہ مگر پُر وقار وزیر مینشن، ایک تاریخی عمارت ہے، جہاں برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے25دسمبر 1876ء کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے، جس کی بنا پر اسے قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ تین منزلہ وزیر مینشن کو تاریخ کے سنہرے اوراق میں قائد کی نشانیوں کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں بابائے قوم کے زیر استعمال اشیا کو رکھا گیا ہے، جنھیں دیکھ کر لوگ آج بھی ان کا وجود محسوس کرتے ہیں۔ یہاں کی ہر شے کو کیمیکل لگا کر محفوظ کیا گیا ہے، تاکہ نئی نسل کو اپنے قائد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جاسکیں۔ قائد کی اہلیہ رتی بائی کا سامان، محمد علی جناح کی شخصیت میں موجود نفاست کا ثبوت دیتے ان کے استعمال شدہ لباس اور جوتے ہی نہیں بلکہ وہ کرسی جس پر قائد نے پہلے گورنر جنرل کا حلف لیا اور انکے زیر مطالعہ رہنے والی کتابیں بھی اس عجائب گھر کا حصہ ہیں ۔

مینارِ پاکستان، عالیشان یادگار

مینار پاکستان، ملک کی ایک اہم قومی یادگار ہے جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیرکیا گیا ہے، جہاں 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔ مینارِ پاکستان کو یادگارِپاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ گریٹراقبال پارک کے نام سے یاد کیا جانے والا یہ پارک برطانوی دورِ حکومت میں منٹو پارک کہلاتا تھا۔

مینارکی تعمیرکے لیے 1960ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کی منظور کردہ سفارشات اورڈیزائن پراس مینارکی تشکیل ہوئی۔ مینارکا ڈیزائن ترک ماہرتعمیرات نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھااورتعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔21اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75لاکھ روپے تھی۔ یہ18ایکڑرقبے پرمحیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اورمینار کے اوپر جانے کے لیے324سیڑھیاں ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔

مینارکا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشابہت رکھتا ہے اوراس کی سنگِ مرمر کی دیواروں پرقرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اورعلامہ محمد اقبال کے اقوال اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی مختصرتاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اوربنگالی، دونوں زبانوں میں مینارکی دیواروں پرکندہ کیا گیا ہے۔

حال ہی میں اقبال پارک کو گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔ اس پارک کو مزید وسیع کرکے تھیم پارک کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس میں لائبریری، اوپن ایئر جمنازیم، بگھی ٹریک اور آٹھ سو فٹ طویل میوزیکل اینڈ ڈانسنگ فاؤنٹین یعنی فوارے نصب کئے گئے ہیں۔ اس کی آرائش و زیبائش میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

سیٹھی ہاؤس میوزیم پشاور، نایاب تعمیراتی عجوبہ

پشاور کے ’گھنٹہ گھر بازار‘ سے چند قدم آگے ’محلہ سیٹھیاں‘ ہے، جہاں کی عمارات، قدیم طرز تعمیر کے حوالے سے تہذیبی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ محلہ سیٹھیاں کی وجہ تسمیہ قیام پاکستان سے قبل یہاں آکر آباد ہونے والا سیٹھی خاندان ہے۔ اپنے عہد کے امیر ترین سیٹھیوں نے پشاور میں اپنی رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے دور دراز ریاستوں سے نہ صرف ماہر کاریگروں کو بلوایا بلکہ ان کی تزئین و آرائش میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی اور وسط ایشیائی ریاستوں سے آرائشی سامان منگوایا۔ ’سیٹھی خاندان‘ کی بنائی ہوئی یہ عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان گھروں کی تعمیر میں لکڑی کا کام دو طرح کا ہے، ایک میں لکڑی پر کندہ گل بوٹے ہیں اور نہایت ہی نفیس آرپار کی جالیاں ہیں جبکہ دوسری قسم میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر دروازوں اور چوکھٹوں کو سجایا گیا ہے۔ ان گھروں میں چار پائیوں کے پائے سے لے کر نعمت خانے (جالی کی بنی ہوئی الماری جو باورچی خانے میں استعمال ہوتی ہے) تک اور گھروں کے صدر دروازے، روشن دان اور پنجالیوں، اور چھت پر لگے ہوئے شہتیروں، چینی خانوں کے فریموں اور دیواروں میں لگی ہوئی الماریوں سمیت ایک ایک انچ بڑی مہارت اور کمال فن سے تراشا گیا ہے۔ سیٹھیوں کے گھروں کی ایک اور خاص بات ان مکانات کے وسط میں بنے ہوئے کشادہ صحن ہیں، ان گھروں کی تعمیر اور اینٹوں کی چنائی وغیرہ کے لیے جو مسالا استعمال کیا گیا ہے اسے ’گچ‘ کہتے ہیں جو راکھ اور چونے کا آمیزہ ہوتا ہے اور اس میں روئی یا پٹ سن کا ریشہ بھی ملایا جاتا ہے۔

پشاور کی قدیم تعمیرات میں دو طرح کی اینٹوں کے نمونے ملتے ہیں ایک قسم کو’بادشاہی اینٹ‘ کہا جاتا ہے جو ایک سے ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی ہے، دوسری قسم کی اینٹ کو ’وزیری‘ کہا جاتا ہے، جو زیادہ سے زیادہ چھ انچ لمبی، تین انچ چوڑی اور ایک سے ڈیڑھ انچ موٹائی ہوتی ہے۔ یہ اینٹ نفیس کا موں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ سیٹھی گھروں میں اسی وزیری اینٹ کا استعمال بہ کثرت کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان گھروں کی تعمیر میں کس قدر نفاست کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1880ء سے 1901ء کے درمیان تعمیر ہونے والے مکانات کی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ آج بھی ’محلہ سیٹھیاں‘ سے گزرنے والوں کے قدم تھام لیتا ہے۔

تازہ ترین