• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحاج طاہر القادری صاحب سے میری ملاقات 1979ء میں ہوئی تھی، لاہور پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج کی ایف ای ایل کی کلاس میں بیٹھا تھا کہ آئے ،لیکچرار تھے، اسلامیات کا پیریڈ لیا کرتے تھے اور نام کے ساتھ پروفیسر لکھتے تھے، کروشیے کی بنی ہوئی سفید رنگ کی ٹوپی پہنا کرتے، اٹھائیس سال کے چاق و چوبند دبلے پتلے چھریرے سے خوبصورت انداز تخاطب ،کوئی دیکھ لیتا تو ملنے کو دوڑتا ، مگر میں نے ملنے سے انکار کر دیا تھا، وہ لاہور سے واہ فیکٹری پہنچ چکے تھے اور طے شدہ وقت کے مطابق ایک گھنٹے بعد انہوں نے میرے پاس اسلام آباد آنا تھا مگر میں نے انہیں روک دیا تھا ،میرا ایسا کرنے سے ان کی شخصیت متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کا مشن رکا مگر میں نے اپنے حصے کا کام کیا تھا، ہمیں اپنے حصے کا کام کرتے رہنا چاہئے یہ غالباً1986کے آخری دنوں کی بات ہے، قادری صاحب کی خواہش تھی کہ میں ان کا انٹرویو کروں، ان دنوں میں ایک ہفت روزہ کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا، 1980کی دہائی تک ہفت روزوں کے انٹرویوز، روزنامے کمال مہربانی کرتے ہوئے ” لفٹ“ کیا کرتے تھے۔ خیر بات طاہر القادری صاحب کی ہو رہی تھی، منہاج القرآن اسلام آباد آفس کے ابو العمار بلال مہدی نے نومبر1986میں قادری صاحب کا انٹرویو کرنے کو کہا ،میں نے عذر پیش کیا کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، انہوں نے چند آڈیو کیسٹس اور ایک دو ڈائجسٹ دیئے ،مطالعے کے لئے پندرہ دن کا وقت مانگا جو دے دیا گیا ۔ میں نے جب کیسٹس سنیں اور ان کی شخصیت کے متعلق پڑھا تو حیران رہ گیا، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ گلہ بھی کیا ہوا تھا کہ لوگ تحقیق نہیں کرتے بس ایسے ہی چھاپ دیتے ہیں، میرا چونکہ پسندیدہ شعبہ ہی تحقیق ہے، اس لئے میں نے تحقیق کی قادری صاحب نے اپنے والد گرامی کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ 1918ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے تھے ، ابتدائی تعلیم تو انہوں نے جھنگ اور سیالکوٹ سے حاصل کی، لیکن طب کی ساری تعلیم انہوں نے لکھنو کے طیبہ کالج سے حاصل کی تھی ،لکھنو میں شفا الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی اور دہلی میں حکیم نابینا انصاری ان کے اساتذہ میں رہے، لکھنو میں شکیل مینائی سے اردو ادب اور شاعری میں استفادہ کرتے رہے، حیدر آباد سے طب یونانی میں تخصص کیا اور دینی علوم کی تعلیم دارالعلوم فرنگی محلی لکھنو سے ، وہ علامہ فرید الدین قادری کہلاتے تھے، عدیم المثال خطیب، بلند پایہ عالم دین اور جلیل القدر طبیب ، تصوف اور روحانیت سے انہیں خصوصی شغف تھا، بغداد کے شیخ ابراہیم سیف الدین الگیلانی سے روحانی فیض پایا ،مولانا محمد یوسف سیالکوٹی، شیخ الحدیث مولانا سردار احمد محدث لائلپوری اور مولانا ابو البرکات سید احمد قادری سے اکتساب فیض کے علاوہ بغداد اور دمشق کے جلیل القدر علماء سے بھی علم و نور سمیٹا ، شیخ محمد المکی الکتابی ، رئیس رابطہ علمائے شام سے شیخ اکبر کی فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کا درس لیا، مدینہ طیبہ میں مولانا عبدالشکور مہاجر المدنی سے حدیث میں خصوصی تعلیم حاصل کی وہ 2نومبر 1974ء کو جھنگ میں وصال فرما گئے “ وہ اپنے دور کے ولی کامل تھے، محقق تھے، بہت بڑے بزرگ تھے صاحب کرامت تھے ،1948میں جب حج پر گئے تو کعبہ میں مقام ملتزم پر غلاف کو تھام کر کہا کہ اے اللہ تو نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے ،بیٹیاں بھی دی ہیں لیکن اولاد نرینہ نہیں ہے۔ اے اللہ تو مجھے ایسا بیٹا عطا کر جو تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو، اس دعا کے ساتھ ان کی آنکھ لگ گئی اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں آ کر کہا کہ علامہ فرید الدین قادری“ اٹھ تیری دعا رب نے قبول کر لی ہے، تجھے مبارک ہو، یوں پھر میں19فروری 1951ء کو پیدا ہوا ،طاہر القادری صاحب نے بتایا کہ جب وہ گوجرہ روڈ جھنگ میں اٹلی کے مشنری اسکول میں آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو غالباً 1962ء میں ان کے والد صاحب دوبارہ حج پر گئے۔ اور چھ ماہ تک روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھے رہے۔ واپسی پر1963 ء میں نبی آخر الزماں ایک بار پھر خواب میں آئے اور فرمایا ،علامہ فرید الدین قادری، طاہر سن شعور کو پہنچ گیا ہے اور ہمارے ساتھ تمہارا وعدہ ہے اس سے ملاقات کرانے کا اپنا وعدہ پورا کرونا“ یوں پھر اسی سال بڑے قادری صاحب چھوٹے قادری صاحب کو لے کر مدینہ پاک چلے گئے ،روضہ رسول پر چھوٹے قادری صاحب کو چھوڑ کر خود وہاں سے ہٹ گئے، طاہر القادری صاحب آگے چل کے بیان کرتے ہیں کہ ان کی عمر تو اس وقت تیرہ سال بھی نہیں تھی لیکن حضور کے سامنے پیش ہونا بہت بڑا اعزاز تھا وہ مسلسل روئے جا رہے تھے انہیں ہوش نہ رہا مگر وہاں بدستور کھڑے رہے۔ “
میں طاہر القادری صاحب کی اس بات پر سوچوں میں پڑ گیا چونکہ بنیادی طور پر سادہ واقع ہوا ہوں اس لئے بے ہوشی میں کھڑا رہنے کو کرامت سمجھ بیٹھا، تجسس بڑھا تومنہاج القرآن والوں سے مزید پڑھنے کو مواد منگوایا اور رہ رہ کر خود کو کوستا رہا اور اپنے مطالعے کو مورد الزام ٹھہراتا رہا کہ اتنا بڑا عالم دین علامہ فرید الدین قادری، کا ذکر آج تک میری نظر سے نہ گزرا ،کبھی اپنی لائبریری کی ہزاروں کتابوں پر تاسف کرتا، لیکن میں نے جب جھنگ کے کچھ دین دار بھائیوں سے معلومات لیں تو انہوں نے بتایا کہ طاہر القادری کے والد تو ضلع کونسل کے موضع گڑھ مہاراجہ کی دیہاتی ڈسپنسری (رورل ہیلتھ) میں ملازم تھے ان کے پاس میڈیکل کی کوئی باقاعدہ تعلیم تو نہ تھی مگر شام کو مضافات میں دوا دارو کیا کرتے تھے، اس کے بہت بعد قادری صاحب نے 30اپریل 1990ء کو پنجاب ٹریبونلز آف انکوائری آرڈی نینس 1969کی دفعہ 3کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فضل کریم کے روبرو بھی اقرار کیا تھا کہ ان کے والد گرامی رورل ہیلتھ سینٹر میں ملازم تھے۔
بعد میں کچھ ایسا مواد مجھے بھیجا گیا جس میں طاہر القادری صاحب کی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقاتوں کا احوال تھا یہی وجہ تھی کہ میں نے1986میں یہ کہہ کر قادری صاحب سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ میں تو آپ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق سمجھتا رہا لیکن۔
یہ وہ زمانہ تھا جب طاہر القادری نے جناح کیپ پہننا شروع کی تھی، طاہر القادری صاحب نے 1986ء میں ہی اعلان کیا تھا کہ اپنی تحریک کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کریں گے مگر وہ مسلسل سیاست کرتے آ رہے ہیں، وہ مخلوط تعلیم کے حق میں تو ہیں مگر اسلامی ریاست میں عورت کی حکمرانی کے حق میں نہیں ہیں یہ اور بات کہ جب نومبر 1989ء میں بے نظیر صاحبہ کو اقتدار ملا تو انہوں نے محترمہ کو نہ صرف بہن کہنا شروع کیا بلکہ اظہار یکجہتی کے لئے سندھی ٹوپی پہننا بھی شروع کردی تھی۔ طاہر القادری کی شخصیت سے خواب نکال دیئے جائیں تو وہ ایک جفاکش انسان کے روپ میں سامنے آتے ہیں انہوں نے سائیکل سے لینڈ کروزر تک کا سفر جان جوکھوں میں ڈال کر کیا ہے وہ الطاف حسین حالی# کے اس شعر کی تفسیر ہیں کہ
نہال اس گلستان میں جتنے بڑھے ہیں
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں
اب عالم یہ ہے کہ حکمرانوں کیلئے انہیں نیچے لانا مشکل ہو رہا ہے۔ اب تو شیخ الاسلام کی ٹوپی میں ہیں اور 14جنوری سر پر کھڑی ہے۔ میں نے1999ء میں بھی اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اسلام آباد میں برطانیہ کے ہائیڈ پارک کی طرح ایک سیکٹر مختص کردیں جہاں جس کا جو جی چاہے کہتا رہے، بیٹھا رہے، دھرنا دے، امریکہ میں تو اب ڈسٹرکشن کلب بھی بنا دیا گیا ہے جو چاہے ممبر بن کے قیمتی اشیاء توڑ کر غصہ نکال سکتا ہے۔ ویسے تو منہاج القرآن والوں نے مجھے ہمیشہ یاد رکھا، کتابیں بھجوائیں ،میرے ساتھ تصویریں بنوائیں ویمن لیگ کی ناظمہ نصرت امین نے دہشت گردی اور فتنہ خوارج کا فتویٰ بھجوایا ،کراچی ایکسپو سینٹر کے کتاب میلے میں مجھے قرآن الحکیم کا تحفہ دیا 1999ء میں جب طاہر القادری صاحب نے اتفاق مسجد سے علیحدگی اختیار کی تو مجھے آخری جمعہ کے خطاب کی وڈیو بھجوائی انہی دنوں مسرت شاہین میرے پاس آئی کہ وہ اپنی مساوات پارٹی کسی میں ضم کرنا چاہتی ہے۔ میں نے کہا کہ طاہر القادری صاحب کے پاس چلی جاؤ وہ گئی اور ضم ہوگئی وہ خیر سگالی کا ایک انداز تھا ۔
تازہ ترین