• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس یہی اک بات سننے کی کسر رہ گئی تھی کہ ..........’’پاکستان کے پاس صرف دو راستے باقی رہ گئے ہیں، دیوالیہ ہوجائے یا IMF پروگرام لے ‘‘ اور ظاہر ہےIMFجو کچھ دے گا، سو فیصد اپنی شرائط پر دے گا اور دھندے میں دل نہیں صرف دماغ سے کام لیا جاتا ہے۔ اسد عمر کس ایجنڈے پر ہے کہ وہ بات بتانے میں تقریباً8مہینے لگا دئیے جو مجھ جیسے احمقوں، اناڑیوں کو روز اوّل سے معلوم تھی۔ سچ یہ کہ سچ یا یوں کہئے کہ پورا سچ اب بھی نہیں بولا جارہا لیکن کب تک؟ اگست تک سورج سوا نیزے پر آجائے گا تو آٹے دال کا اصل بھائو بلکہ ’’اسد بھائو‘‘ سب کو معلوم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی درست نہیں کہ پاکستان کے پاس صرف دو راستے ہیں کیونکہ اک تیسرا راستہ بھی ہے لیکن ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ اور وہ بھی عوام سے اس لئے تیسرے رستہ پر لعنت بھیجو کہ یہ تو وہ راستہ ہے جس کے بارے فیض نے کہا تھا’’جو رہ بھی ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے‘‘لکھ لکھ کر کتنے قلم گھسا دئیے کہ ..........اس پورے نظام کو تیزاب سے غسل دو’’جلادوں کو اوور ٹائم دو‘‘’’گلوٹین تین شفٹوں میں کام کرے‘‘لیکن انہیں یہ علامتی مشورے ملامتی ہذیان محسوس ہوئے ورنہ کیا انہیں اب ہوش آتی اور اب گیس چوروں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دیتے؟ اور کون ان سے پوچھے کریکو! یہ کریک ڈائون کرے گا کون؟ قدم قدم پر تو چور اور چوکیدار بھائی وال ہیں۔صدقے جائوں جمہوریت کے اس حسن پر سے کہ قومی ائیر لائن کنگال ہوگئی، ذاتی ائیر لائنز کو لعل و جواہر لگتے گئے اور کیا یہی کچھ تقریباً ہر شعبہ میں نہیں ہوا؟ PTIمیں واحد آدمی تھا وزیر خزانہ جو دیر سے جانتا تھا کہ اقتدار ملنے پر اسے کون سی ذمہ داری ملے گی؟ اور مہینوں بعد بھی ’’تیاری‘‘ کا یہ عالم کہ بدترین کنفیوژن کی حالت میں سوچ رہے ہیں کہ ..........دیوالیہ ہوجائیں یاIMFکے پاس جائیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک انتہائی مہذب، محتاط اور ملائم انداز میں کہتا ہے ’’2020تک پاکستان کی اقتصادی ترقی خطے میں سب سے کم رہے گی، ترقی(؟) کی شرح اس سال کم اگلے سال مزید کم۔ مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر پر دبائو رہے گا۔ ہماری شرح نمو 3.9 سے کم ہو کر 3.6 فیصد رہ جائے گی جبکہ بھارت کی شرح نمو 7.2 ہو گی۔‘‘’’اے ڈی بی‘‘ نے 2020تک کی معاشی منظر کشی تو کردی لیکن یہ نہیں بتایا کہ 2020کے بعد کا منظر کیسا ہوگا؟ حال یہ ہے کہ سمندر سے تیل نکلنے کی خوشخبریاں سناتے ہوئے اتنا بھی نہیں جانتے کہ اگر ایسا ہو بھی گیا تو عوام تک اس کے ثمرات پہنچنے میں کتنے سال درکار ہوں گے۔محاورہ ہے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا یا لگانا لیکن اس بار مسئلہ اک اور بھی ہے کہ مختلف و متضاد سمتوں میں اتنے ٹرک روانہ کردئیے گئے ہیں کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگے اور کس ٹرک کے آگے لیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شانت ہوجائے۔ چند سال پہلے شہباز شریف نے بھی رجوعہ (چنیوٹ) میں اک ایسی ہی نوٹنکی چلائی تھی۔ ’’اراضیات‘‘ کی میں اے بی سی سے بھی واقف نہیں لیکن میری چھٹی حس نے مجھے بتایا کہ یہ آدمی ڈرامہ کررہا ہے۔ میں نے فوراًاپنے جیالوجسٹ دوستوں سے رابطہ کیا جن میں سے کچھ سینئر پوزیشنز پر واپڈا میں بھی رہ چکے تھے اور ان میں سے ایک رجوعہ پراجیکٹ سے بھی وابستہ رہ چکا تھا۔ میٹنگ میرے ہی گھر پر ہوئی۔ دوستوں نے ایسی بریفنگ دی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ سیاسی حکمران عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اس حد تک بھی جاسکتے ہیں لیکن دوست اتنے قابل اور قابل بھروسہ تھے جن کے ساتھ میں نے چار سال دن رات ہاسٹل میں بسر کئے تھے۔ میں نے دو یا شاید تین قسطوں میں اس فراڈ کی دھجیاں اڑادیں اور یہ بھی کہا کہ کچھ غلط ہے تو یہی کالم وضاحت کے لئے حاضر ہے۔ ’’شہباز سپیڈ‘‘ کو سانپ سونگھ گیا کہ جھوٹ کے پائوں کیا، ٹانگیں بھی نہیں ہوتیں۔آج رجوعہ کہاں ہے؟لیکن معاف کیجئے کہ آج بھی جا بجا ’’ رجوعہ‘‘ ہے لیکن کبھی کبھی ’’دی ٹریپ‘‘ کے ہیرو کی طرح شکاری خود اپنے پھیلائے اور لگائے ہوئے پھندوں میں سی کسی ایک میں پھنس جاتا ہے، سو خاطر جمع رکھیئے۔ میں تو پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اگست کے آگے پیچھے سورج سوا نیزے پر ہوگا تو نہ بجلی کی ضرورت ہوگی نہ گیس کی ضرورت رہے گی۔

تازہ ترین