• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمِ اسلام میں ایک ملائیشیا ہی ہے جو ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، وہ بھی اپنی مثالی مشقت اور دیانتداری کے بل بوتے پر۔ یہ ترقی اس قدر حیرت انگیز تھی کہ کئی بار جی چاہا کہ چل کر زیارت کریں۔ حال ہی میں ملائیشیا کے مردِ باکمال، وزیراعظم مہاتیر بن محمد پاکستان کے دورے پر آئے تو خیال ہوا کہ ہم اپنی خستہ حالی کی داستان سنا کر ان سے داد پائیں گے۔ پر ہمیں کیا خبر تھی کہ ان کا ملک ہم سے بھی زیادہ کشتۂ تیغِ ستم رہ چکا ہے۔ پچھلے برس کے انتخابات میں بری طرح شکست کھانے والے سابق وزیراعظم نجیب رزاق نے قومی دولت کی وہ درگت بنائی کہ ان کی مالی دھاندلیوں کا حال کھلا تو دنیا بھر میں سنسنی سی پھیل گئی۔ اب جو وہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں تو ان پر کل ملا کر بیالیس الزامات ہیں اور اکثر کا تعلق قومی دولت کی ہیرا پھیری سے ہے۔ انہیں جن مقدمات کا سامنا ہے ان میں ایک بڑا الزام یہ ہے کہ قومی خزانے سے انہوں نے مبینہ طور پر اڑسٹھ کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم اپنی جیب میں ڈال لی۔ عدالت میں انہوں نے یہ سارے الزامات ماننے سے انکار کر دیا۔ جب وہ پیشی کیلئے پہنچے تو ان کے حمایتی بڑی تعداد میں موجود تھے اور نجیب زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ پہلے انہوں نے اور سارے مجمع نے دعا کی جس کے بعد وہ عدالت میں داخل ہوئے۔ اس قومی خزانے کی داستان بھی عجیب ہے۔ یہ دراصل ایک علیحدہ فنڈ ہے جو ون ایم ڈی بی کے نام سے مشہور ہے۔ قومی دولت سے یہ بھاری فنڈ قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد دولت کو بروئے کار لاکر ملکی معیشت کو آسمان تک پہنچانا تھا مگر ہوا یہ کہ یہ پیسہ ہزار طرح کی عیاشیوں پر لٹایا گیا۔ بے شمار سونا خریدا گیا، مصوری کے قیمتی شاہکار خریدے گئے، دنیا میں مہنگے سے مہنگے فلیٹ خریدے گئے، ہالی وڈ میں فلم بنائی گئی اور ایک شاہانہ کشتی بھی بہت ہی مہنگے داموں خریدی گئی۔ اس کشتی میں سوئمنگ پول ہے، سنیما ہے اور اس پر ہیلی کاپٹر اتر سکتے ہیں۔ اس کی قیمت پورے پچیس کروڑ ڈالر ادا کی گئی تھی۔ اب یہ مہینوں سے بیکار کھڑی زنگ کھا رہی تھی۔ آخر عدالت نے اسے بحقِ سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا اور مسٹر نجیب کی بے پناہ دولت کا یہ پہلا اثاثہ ہے جو فروخت کر دیا گیا ہے۔ نئے گاہک نے اس کے بارہ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر لگائے ہیں، یعنی کشتی آدھے داموں فروخت ہوئی۔

کیسی عجیب بات ہے کہ ملائیشیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، محسوس ہوتا ہے پہلے بھی کہیں ہو چکا ہے۔ مسٹر نجیب پر مقدمے کی کارروائی 12فروری سے شروع ہونا تھی، وکیل اپنے مخصوص داؤ پیچ سے اس میں تاخیر کراتے رہے۔ اب جو پیشی ہوئی، وکلا اسے بھی ٹالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے لیکن عدالت نے ان کی سنی اَن سنی کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دولت کی اس ہیرا پھیری میں لندن کی ایک فرم برابر کی شریک تھی۔ حکومت نے اس پر بھی مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ فرم کہتی ہے کہ ہمیں گمراہ کیا گیا، ہم بے قصور ہیں اور اپنے دفاع میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ عدالت میں پہلے روز 1کروڑ 30لاکھ کا معاملہ اٹھایا گیا جو راتوں رات مسٹر نجیب کے ذاتی اکاؤنٹ میں چلے گئے تھے۔ یہ رقم ان 68کروڑ ڈالروں کے علاوہ ہے جو گھوم پھر کر ان کے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ملک کا مالیاتی فنڈ دوسروں کی رقم ادا کرنے میں ناکام ہونے لگا۔ اس وقت لوگوں کا ماتھا ٹھنکا۔ یہ 2015کی بات ہے۔ امریکہ جو دنیا میں منی لانڈرنگ پر نگا ہ رکھتا ہے، نے کہا کہ ساڑھے چار ارب ڈالر غائب ہیں۔ امریکی وکلائے سرکار نے کہا کہ ملک کے قومی فنڈ سے 68کروڑ ڈالر نکالے گئے جو سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے شاہانہ طرزِ زندگی پر خرچ ہوئے۔ اہلیہ پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔ اور پھر یہ ہوا کہ جن دنوں مسٹر نجیب اقتدار کے تخت پر براجمان تھے، ملائیشی حکام نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عوام اس پر دانت پیس کر رہ گئے۔ اس کے بعد 2018کے انتخابات ہوئے جن میں مسٹر نجیب کو، اخباری زبان میں، تاریخی شکست ہوئی۔ نئی حکومت نے فوراً ہی چھان بین شروع کر دی۔ ان کے گھروں کی تلاشی لی گئی جن میں پُرتعیش چیزوں سے بھری ہوئی شاپنگ والی ٹرالیاں اور 2کروڑ 86لاکھ ڈالر کی نقدی برآمد ہوئی اور سابق وزیراعظم گرفتار ہوئے۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ وہ ضمانت پر چھوٹ گئے۔ ان کی بیگم کے شاپنگ کے جنون کا یہ عالم تھا کہ ان کے گھر سے 500بے حد قیمتی اور شاندار ہینڈ بیگ، سینکڑوں گھڑیاں اور 12ہزار زیورات نکلے جن کی مالیت 27کروڑ ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ خاتون پر پیسوں کے گھپلے اور ٹیکس کی چوری کے الزام لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے بھی وہی کیا، اقبالِ جرم سے انکار۔ میاں بیوی دونوں نے کہا کہ یہ ان کے خلاف سیاسی کارروائی ہے۔

آخر میں ضروری بات جو کہنے سے رہ گئی۔ دس سال پہلے نجیب رزاق کو آگے بڑھانے اور مقبول بنانے میں ذرا سوچئے کس کا ہاتھ تھا۔ وہ جناب مہاتیر محمد تھے جن کی کوششوں سے نجیب رزاق انتخابات جیتے تھے مگر انسان کے باطن کو کون جانتا ہے۔ آگے چل کر یہ ہوا کہ مہاتیر محمد نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میں ہر ایک سے معافی کا خواستگار ہوں؛ میں نے ہی ان کو اوپر چڑھایا تھا۔ وہ زندگی میں میری سب سے بڑی بھول تھی۔ میں اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

مہاتیر محمد صاحب! آپ کو اصل کام اب کرنا ہے۔ یہ ساری رقم بٹورئیے اور واپس قومی خزانے میں جمع کرائیے۔ نہ کرا سکے تو پاکستان کیا بُرا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین