• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل محترم نجم سیٹھی کا کالم بعنوان ”ڈرون حملہ …دھماکہ یا آہ و زاری“ نظر سے گزرا۔ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری کی وطن واپسی اور 23دسمبر کے بڑے جلسے کے بعد سے ملکی سیاست میں ایک دم پیدا ہونے والے ماحول کی گرمی سے ہر طبقہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق متاثر ہوا ہے۔ ان متاثرین کی تعداد میں اس وقت دگنا اضافہ ہوگیا جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے طاہر القادری صاحب کے موٴقف کی نہ صرف حمایت کی بلکہ 14جنوری کے لانگ مارچ میں ایم کیو ایم کی شرکت کا اعلان کیا۔ نجم سیٹھی صاحب بھی ٹی وی چینل اور اخباری کالم کے ذریعے اپنے مخصوص (مزاحیہ) انداز میں خیالی گھوڑے دوڑاتے نظر آئے۔ مذکورہ بالا کالم میں موصوف نے علامہ طاہر القادری کی پاکستان آمد اور موجودہ مطالبات کے حوالے سے ان کی تضاد بیانیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے زائچے بھی کھینچے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف کا پورا کالم اپنی جگہ خود تضاد بیانی اور قیاس آرائیوں کی وجہ سے چوں چوں کا مربہ بنا نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی جگہوں پر فاضل کالم نگار مصلحت پسندی کا شکار بھی ہوتے دکھائی دئیے ہیں فاضل کالم نگار اس امر پر خاطر جمع رکھیں ایم کیوایم نے قادری صاحب کے جس مارچ کی حمایت کی ہے اسکی بنیاد وہ مماثلت ہے جو دونوں جماعتوں کے مقاصد میں ہے ایم کیو ایم کی 35 سالہ جدوجہد کا محور ملک سے فرسودہ ظالمانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ کالم نگار ایک مقام پر رقم طراز ہیں کہ”ایم کیو ایم نے اپنا وزن قادری صاحب کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ”اس کے لاکھوں کارکن اسلام آباد میں قادری صاحب کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ”آگے موصوف ایم کیو ایم پر الزام لگا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے کچھ سیاسی مفادات پورے ہوتے ہی ایم کیو ایم اس لانگ مارچ سے دستبردار ہوجائے گی، خیال پر مشتمل اس الزام کی نفی آنے والا وقت کردے گا۔
فاضل کالم نگار نے نگراں حکومت میں زیادہ حصے کے مطالبے کا الزام بھی ایم کیو ایم کے سر تھوپا کہ یہ بنیادی وجہ ہے جس کی بناء پر ایم کیو ایم نے علامہ طاہر القادری کی حمایت کا اعلان کیا اس ضمن میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر کوئی ثبوت انکے پاس موجود تو سامنے آج کے اس مہذب دور آرٹیکل سازی کا تقاضہ ہے بغیر ثبوت حاشیہ نگاری نہ کی جائے۔ فاضل کالم نگار کاطرزِ تحریر بھی غیر ذمہ دارانہ اور مضحکہ اڑانے والا ہے ۔
وہ آگے فرماتے ہیں کہ ”پی پی پی کو یقین ہے کہ پی ایم ایل (ن)پنجاب میں لانگ مارچ کے شرکاء کے راستے میں رکاوٹ بھی ڈالے گی اور دیگر اسلامی گروپوں سے قادری لانگ مارچ کے خلاف بیانات بھی دلوائے گی۔ “ شکر ہے کہ موصوف نے دیگر اسلامی گروپوں سے صرف بیانات دلوانے پر اکتفا کیا ہے؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی نہایت غیر سنجیدہ تحریر ہے جو مسلکی اور فروعی اختلافات پر تیل چھڑکنے کوشش ہے۔ وطن عزیز پاکستان پہلے ہی اس آگ میں جل رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ معزز کالم نگار اپنے خیالی گھوڑے دوڑا کر اس طرح کے غیر منطقی تجزئیے پیش کرکے جلتی پر تیل کاکام کر رہے ہیں۔ ایک جگہ جناب فرماتے ہیں کہ ”اسی طرح کے ایک اور بیان سے ایم کیو ایم کی بھی ”تسلی “ ہوجائے گی۔
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہاں موصو ف کو آئی ایس پی آر کے دوسرے کس بیان کا انتظار ہے؟ اور پھر ایم کیو ایم کی ”تسلی“ سے ان کی کیا مراد ہے؟ ہونا یہ چاہیے تھا کے فوج کے اس ادارے کی غیر ضروری وضاحت کو آڑے ہاتھوں لیتے وہ اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئے اسکے ساتھ ساتھ جمہوریت کے کھلاڑی بھی بنتے نظر آتے ہیں یہ کھلا تضاد کیوں ایک اور جگہ سیٹھی صاحب فرماتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کو زرداری حکومت کا انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہونا یا نواز شریف کا اقتدار میں آنا پسند نہیں ہے۔ ان حلقوں کی وضاحت بھی فاضل کالم نگار فرما دیتے تو شاید اس تمام حاشیہ آرائی کا کوئی مقصد قاری تک منتقل ہوسکتا۔ لیکن افسوس کہ موصوف نے صرف کاغذ کا پیٹ بھرنے کی حد تک رقم طرازی کی جسے اگر موصوف خود شکم سیری کے لیے تعبیر کریں تو میں بری الذمہ ہوں۔ ایک اور جگہ موصوف رقم طراز ہیں کہ قادری صاحب کو پاکستانی سیاست میں اس طرح ہلچل مچانے کے لیے جس کسی نے بھی اکسایا ہے“ پھر کچھ الفاظ کے بعد فرماتے ہیں کہ ”یقیناً بین الاقوامی برادری نے ایسا نہیں کیا ہے…اُس نے لگتا ہے کہ اب میڈیا میں ہونے والی تنقید کی وجہ سے ارادہ تبدیل کرلیا ہے“ مجھے یہ متضاد بیانات پڑھ کر حیرت کے ساتھ ساتھ دلی افسوس بھی ہوا ہے کہ فاضل کالم نگار کس قسم کی پہیلیاں بجھوا رہے ہیں؟ ایک بات کہہ کے اس کے بالکل متضاد بات کہنا اور پھر تیسری بات، اگلی دو باتوں سے جوڑنا، اگر یہی تجزیہ نگاری، دانشوری اور صحافت کے تقاضے ہیں تو خوب ہے! یعنی اندھیرے میں تیر چلانا اور وہ بھی ہر سمت میں تاکہ کوئی نہ کوئی تیر نشانے پر جا کر لگے۔ چاہے اس خطرناک کوشش میں عوام کے دلوں میں مذہبی و سیاسی منافرت کی آگ بھڑکے ، چاہے کسی جماعت یا اس جماعت کے لیڈر کی کردار کشی ہو۔
آخر میں صرف ایک مشہور شعر محترم نجم سیٹھی کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں:
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
تازہ ترین