• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاہے کپاس ہو گندم یا کوئی اور فصل، پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار چین اور بھارت، دونوں سے کم ہے۔ ہماری کم زرعی پیداوار کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی کسان دیگر ممالک کے کسانوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کپاس، گندم اور دیگر اجناس کی قیمت عالمی قیمت سے زیادہ رکھتی ہے تاکہ ہمارا کسان مالی بحران سے بچ جائے۔ پاکستان میں فی ایکڑ کم پیداوار کے مسئلے کا علاج کافی مشکل ہے لیکن کسی بھی زرعی اصلاحات کے پروگرام کا نقطۂ ٔ آغاز زرعی پیداوار میں اضافہ ہی ہونا چاہئے۔

ہماری افرادی قوت کا نصف کے قریب زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ہمارے پانی کا 90فیصد زراعت پر استعمال ہوتا ہے (پانی کا صنعتوں اور گھروں میں استعمال 5فیصد سے بھی کم ہے) لیکن اتنے زیادہ وسائل استعمال کرنے کے باوجود ہماری کل قومی آمدنی کا صرف پانچواں حصہ زرعی شعبے سے آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگرچہ ہم خیال کرتے ہیں کہ زراعت ہماری معیشت کی بنیاد ہے لیکن رواں سال ہم تقریباً 3بلین ڈالر مالیت کا خوردنی تیل درآمدکرنے جا رہے ہیں۔اب ہم خود تیل نکالنے کیلئے بھاری مقدار میں سویابین بھی درآمد کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، ہم 700ملین ڈالر مالیت کے چنے، دالیں اور اپنی کپڑے کی صنعت کو چلانے کیلئے کپاس بھی درآمد کریں گے۔ زرعی پالیسی میں بہتری کی ضرورت ہے اور مجھے خوشی ہے کہ موجودہ حکومت ایسا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ہماری زرعی پالیسی کا پہلا ہدف فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہونا چاہئے۔ کم پیداوار کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں ناقص معیار کے بیج، کھادوں اور زرعی ادویات کا کم استعمال اور درست فصلیں کاشت کرنے کی ترغیب نہ دینا۔

مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دوران ہم نے کوشش کی تھی لیکن ان تینوں مسائل کے حل میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم نے ’’پلانٹ بریڈرز ایکٹ‘‘ منظور کیا، جو بیج تیار کرنے والوں کو تحفظ دیتا تھا تاکہ وہ اعلیٰ معیار اور حیاتیاتی طریقے سے بہتر اقسام کا تیار کردہ بیج بازار میں لائیں لیکن اس کیلئے ابھی وفاق اور صوبوں کو بہت کچھ کرنا ہے۔ ہمیں فوری طور پر بیج کے معیار کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر کپاس کے بیج کو۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کھاد بنانے والی کمپنیوں کو سستی کھاد فراہم کی تھی تاکہ کسانوں کو سستے داموں یوریا کھاد دستیاب ہو سکے۔ یہ البتہ دیکھا جانا ہے کہ کیا کھاد بنانے والی کمپنیوں کو گیس کی مد میں دی گئی مراعات کا حتمی فائدہ کسان کو پہنچتا ہے؟ ہم نے جعلی ادویات کو سختی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی، یہ کوشش جاری رہنی چاہئے۔ تیس سال پہلے پاکستان اور بھارت میں کپاس کی پیداوار کا حجم ایک جیسا تھا، تقریباً 12ملین گانٹھیں، چنانچہ ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات بھی یکساں تھیں۔ آج حال یہ ہے کہ رواں سال پاکستان صرف 11ملین کپاس کی گانٹھیں اور 13بلین ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کی توقع کر رہا ہے جبکہ انڈیاکا ہدف 38ملین کپاس کی گانٹھیں اور 40بلین کی ٹیکسٹائل برآمدات ہیں۔

کپاس کی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ کپاس کی جگہ گنے کی زیادہ کاشت ہے۔ ہماری حکومت کپاس کو امدادی قیمت نہیں دیتی(جو کہ ایک درست پالیسی ہے) لیکن صوبے گنے کو امدادی قیمت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال شوگر ملوں نے کسان کو 110سے 140 روپے تک فی من ادا کئے لیکن برآمد کرنے کیلئے ہم نے شوگر ملوں کو 180روپے فی من کے حساب سے ہی امدادی قیمت دی۔ چونکہ ہمیں اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کیلئے کپاس کی اُس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، جتنی شوگر انڈسٹری کیلئے گنے کی۔ اس لئے گنے پر امدادی قیمت دینے اور کپاس پر نہ دینے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔

2008ء میں پی پی پی نے گندم کی امدادی قیمت بہت زیادہ بڑھا دی۔ اس کے بعد سے ہر سال وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس میں اضافہ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک ملک، جہاں 45فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے ادھوری نشو ونما کا شکار ہیں، میں گندم کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 30فیصد زیادہ ہے۔ اس بھی بدتر یہ کہ زیرِ کاشت رقبے میں سے زیادہ پر گندم کاشت ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں اس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہے۔ دیگر اہم فصلوں کیلئے جگہ نہیں بچتی اور ہمیں اربوں ڈالر مالیت کا خوردنی تیل، دالیں اور چنے درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ ہمیں زیادہ کپاس، سویا بین، چنے اور دالیں اگانے کیلئے کسان کو رقم دینا چاہئے لیکن ان فصلوں کی امدای قیمت نہیں۔ کسان کو صرف ان فصلوں کیلئے مختص کی گئی اضافی زمین پر فی ایکڑ کے حساب سے رقم دی جائے۔ اس طرح کسان گندم اور گنے کی جگہ ان فصلوں پر بھی توجہ دیں گے۔ لیکن اگر ان فصلوں پر امدادی قیمت دی گئی تو ان کی قیمت بھی بلند ہوکر عام صارفین کی زندگی مشکل بنا دے گی۔ آخر میں، ہمیں کسان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے بجائے آب پاشی کیلئے چھڑکائو کے جدید طریقے اپنائے۔ اس کیلئے اُسے رقم فراہم کی جانا چاہئے۔ اگر ہم کاشتکاری میں استعمال ہونے والے پانی کا 5فیصد بھی بچا لیں تو یہ مقدار دیامر بھاشا ڈیم کی آبی گنجائش سے بھی زیادہ ہو گی۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین