• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن (World Health Day) منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی جانب سے1950ء سے ہر سال 7اپریل کویہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اپنی عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کریں۔ رواں برس صحت کے عالمی دن کا موضوع پوری دنیا بالخصوص ترقی پذیر اور براعظم افریقا کے پسماندہ ممالک کے عوام کو یونیورسل ہیلتھ کوریج (Universal Health Coverage) فراہم کرناہے، اس ہدف کے تحت ہر ایک ضرورت مند تک علاج معالجے کی سہولت کو یقینی بنانا ہے۔

یونیورسل ہیلتھ کوریج سے مراد مالی مشکلات کے بغیر دنیا بھر کے لوگوں کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی ہے جو کہ احتیاط، علاج، بحالی اور دیکھ بھال پر مشتمل ہے۔ اس وقت دنیا کی نصف آبادی صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ 80کروڑ سے زائد افراد اپنے گھریلو بجٹ کا 12فی صد حفظان صحت پر خرچ کرتے ہیں، لہٰذا اقوام متحدہ کے تمام ممالک بشمول پاکستان نے مستحکم ترقی کے اہداف میں یہ عزم کر رکھا ہے کہ2030ء تک یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ہدف کو ممکن بنایا جائے گا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے عوام کے لیے صحت کارڈ کا اجراء اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں نجی شعبے کی شراکت داری سے تعلیم و صحت کے شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

یونیورسل ہیلتھ کوریج کا دائرہ کار

عالمگیر صحت تک رسائی کا مطلب مکمل مفت علاج نہیں بلکہ ایسا ہیلتھ سسٹم، ڈیلیوری، گورننس، قانون سازی، ہیلتھ ورک فورس، ہیلتھ ٹیکنالوجیز، انفارمیشن سسٹمز اور کوالٹی انشورنس میکانزم تشکیل دینا ہے، جس کے تحت صاحبِ استطاعت افراد اپنی اخلاقی و سماجی ذمہ داری میں غریبوں کی مالی معاونت کر کے ان کے علاج میں دستگیر بن کر سامنے آئیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم مقصد آبادی کے وسیع حلقے تک عوامی صحت کی مہموں کے ذریعے صاف پانی، صحت مند خوراک اور پھلوں کی رضاکارانہ فراہمی شامل ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش نصیب ملک ہے کہ یہاں زکوٰۃ و خیرات کا عملی تصور موجود ہے، جس کے تحت حکومتی و نجی سطح پر کئی مخیر طبی ادارے ضرورت مندوں کو علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں۔

بنیادی حفظان صحت

بنیادی حفظان صحت (Primary Health Care)افراد، خاندانوں اور برادریوں کی ذہنی و جسمانی صحت کی بحالی و خوشحالی کا نام ہے، جس کے تحت کسی بھی فرد کی تاعمر ادویہ تک رسائی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ پرائمری ہیلتھ کیئر عالمی صحت تک رسائی کا بہترین پلیٹ فارم ہے، جس کے لئے ہمیں 2030ء تک 18ملین سے زائد اضافی ہیلتھ ورکرز کی ضرورت پڑے گی۔ نجی و سرکاری شعبوں میں ہیلتھ ورکر ایجوکیشن کے لئے ہیلتھ اکانومی پر سرمایہ کاری کے لئے ایسا میکانزم وضع کرنا ہو گا، جس کے تحت کوئی مریض پیسوں کی کمی کے باعث اجل کا شکار نہ ہو اور ضرورت مند مریضوں کے لئے فلاحی فنڈ ہر وقت دستیاب ہوں۔ پاکستان میں کئی اسپتال اس طرز پر کام کر رہے ہیں۔ بنیادی حفظان صحت کو یقینی بنانے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور عالمی بینک نے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے چار شعبوں میں صحت کی 16بنیادی خدمات تک رسائی کو عالمگیر صحت (یونیورسل ہیلتھ) کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ پہلی کیٹیگری میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے خاندانی منصوبہ بندی، بچے کی پیدائش کا درمیانی وقفہ، زچگی کے بعد ماں اور بچے کی حفاظت، مکمل چائلڈ امیونائزیشن اور نمونیا کا علاج، دوسری کیٹیگری میں متعدی امراض جیسے ٹی بی ٹریٹمنٹ، ایچ آئی وی اینٹی ریٹر وائرل ٹریٹمنٹ، ہیپا ٹائٹس ٹریٹمنٹ، ملیریا سے بچائو کے لئے حفاظتی جالیوں کا استعمال اور مناسب نکاسی آب، تیسری کیٹیگری میں بلڈ پریشر کا علاج ،حفاظتی تدابیر، خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھنے کی صورت میں علاج معالجہ، سروائیکل کینسر اسکریننگ اور تمباکو نوشی سے پرہیز جبکہ چوتھی کیٹیگری میں طبی خدمات تک رسائی جس میں اسپتال تک بنیادی رسائی، ہیلتھ ورکرز کی موجودگی، ضروری ادویات تک رسائی اور بین الاقوامی صحت کے قوانین کی پابندی کے ساتھ ہیلتھ سیکیورٹی شامل ہے۔

طالب علموں کی صحت

کوئی بھی طالب علم جسمانی و ذہنی صحت کے بغیر نہ تو تعلیمی کامیابیوں کا سفر مکمل کرسکتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں صحت مند طرز حیات کو فروغ دے کر دوسروں کے لئے مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔ جسم و ذہن کی صحت ہو گی تو ذہانت اور تخلیقی جوہر اُجاگر ہوں گے۔ ہمارا جسم مشین کی طرح کام کرتا ہے، جسے چلانے کے لئے معیاری، تازہ اور معتدل خوراک ازبس ضروری ہے۔ نشوونما کے ابتدائی ادوار سے صحت مند خوراک کا حصول نہ صرف ہمیں جسمانی و ذہنی طور پر چاق و چوبند رکھتا ہے بلکہ ڈپریشن، مایوسی، غصے، اضمحلال، پژمردگی اور شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی و اعصابی عارضوں سے بھی دور رکھ کر طویل عمر، توانا اور مسحور کن زندگی سے سرشار کرتا ہے۔ پاکستان میں 60فی صد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں جن میں 47فی صد اس کمی سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ ان کی ذہنی نشوونما درست انداز سے نہیں ہوپاتی اور وہ اس وجہ سے تعلیمی کامیابی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

تازہ ترین