• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کو سہولتیں دینے والے ممالک

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی ہنرمند افراد کو اپنی جانب مائل کرنے، انھیں ترقی دینے اور اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے معاملے میں مغربی یورپ نے دنیا کے تمام دیگر خطوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

یہ بات IMD World Talent Ranking 2018میں سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے دنیا کے سرِفہرست 10ملکوں میں سے 9کا تعلق مغربی یورپ سے ہے۔

آئی ایم ڈی بزنس اسکول کے کیمپس سوئٹزرلینڈ اور سنگاپور میں ہیں۔ آئی ایم ڈی بزنس اسکول نے ورلڈ ٹیلنٹ رینکنگ 2018ء سروے، دنیا کے63ملکوں میں 3بنیادی شعبہ جات (کیٹیگریز) میں کارکردگی کی بنیادپر کیا ہے۔

1) سرمایہ کاری اور ترقی (Investment & Development)

2)کشش (Appeal)

3) تیاری (Readiness)

سروے کے نتائج میں ان ملکوں کی درجہ بندی مختلف شعبہ جات جیسے تعلیم، تربیت، اَپرنٹس شپ، زبانوں کی مہارت، معیارِ زندگی، معاوضہ یا تنخواہ اور ٹیکس شرح کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

یہ سروے اس سے پہلے چار بار کیا جاچکا ہے اور اب پانچویں سالانہ سروے کے نتائج جاری کیے گئے ہیں۔ گزشتہ چاروں سروے رپورٹس کے نتائج کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی سوئٹزرلینڈ نے اپنی اول پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ سوئٹزرلینڈ، رہنے کے لیے انتہائی مہنگا ملک ہونے کے باوجود، نئی سروے رپورٹ میں3 میں سے 2 کیٹیگریز ’کشش‘ اور ’تیاری‘ میں اول پوزیشن جبکہ سرمایہ کاری و ترقی کی کیٹیگری میں چوتھی پوزیشن پر ہے۔

یورپ کے نارڈک (Nordic)خطے سے تعلق رکھنے والے 3میں سے 2 ممالک ڈنمارک اور ناروے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ناروے، گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال رینکنگ میں چار درجے اوپر آیا ہے۔ باصلاحیت افرادی قوت کی تیاری اور تعلیم پر ریاستی سرمایہ کاری میں بہتری نے اس سال ناروے کی رینکنگ بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فِن لینڈ اور سویڈن رینکنگ میں ساتویں اور آٹھویں نمبر پر ہیں جبکہ 16ویں نمبر کے ساتھ آئس لینڈ واحد نارڈک ملک ہے، جو ٹاپ ٹین سے باہر ہے۔

مشرقی یورپ کے ملکوں کی کارکردگی نسبتاً اچھی نہیں رہی۔ ایسٹونیا 28ویں نمبر پر ہے، جس کے بعد سلواکیا اور لیٹویا کا نمبر آتا ہے۔ مشرقی یورپ کے دیگر ممالک بھی نچلے نمبروں پرہیں۔

کینیڈا واحد غیر یورپی ملک ہے، جو سروے کے ٹاپ ٹین چارٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کینیڈ ا اپنی رینکنگ میں پانچ درجے بہتری لایا ہے۔ کینیڈا کی درجہ بندی میں بہتری کی وجہ وہاں باصلاحیت افرادی قوت کے معیار میں مزید بہتری آنا ہے۔ کینیڈا کی سرحد کے دوسری طرف، امریکا گزشتہ ایک سال کے دوران تینوں شعبہ جات میں بہتری لانے میں کامیاب رہا ہے اور رینکنگ میں چار درجے بہتری کے ساتھ 12ویں نمبر پر آگیا ہے۔

اگر ایشیا کی بات کریں تو سنگاپور اور ہانگ کانگ نے باصلاحیت افرادی قوت کی مسابقت کے میدان میں متاثرکن کارکردگی دِکھائی ہے اور ایشیائی خطے کے یہ دونوں بڑے کاروباری مراکز باصلاحیت پروفیشنلز کو اس سال بھی اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم آئی ایم ڈی کا کہنا ہے کہ باصلاحیت غیرملکی پروفیشنلز کو اپنی طرف کھینچنے میں حائل رکاوٹوں اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں تعلیم پر حکومتی اخراجات کم کرنے کے باعث، چین اس رینکنگ میں اب بھی نیچے کے نمبروں پر نظر آتا ہے۔

مجموعی درجہ بندی میں آسٹریلیا نے اپنے پڑوسی ملک نیوزی لینڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، تاہم دونوں ممالک ’تیاری‘ اور معیارِ زندگی کی ’کشش‘ کے شعبہ جات میں اعلیٰ کارکردگی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور قطر کے علاوہ کوئی بھی ملک اس سروے رینکنگ میں نمایاں درجہ بندی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہی صورت حال لاطینی امریکا کے ملکوں کے ساتھ رہی ہے۔ افریقا میں جنوبی افریقا کو اس رینکنگ میں 50ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

مستقبل کی تیاری

جاب مارکیٹ میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث آجروں کے لیے یہ بات پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ وہ کس طرح باصلاحیت افرادی قوت کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، کس طرح ان کی شخصیت اور ہنر کو پروان چڑھاتے ہیں اور پھر انھیں کس طرح اپنے ساتھ جوڑے رکھتےہیں۔

مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے میدان میں اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے باعث وقوع پذیر ہونے والے چوتھے صنعتی انقلاب میں جس طرح کی نئی نوکریاں پیدا ہورہی ہیں اور ہم جس طرح اپنی نوکریاں کرتے ہیں، دونوں میں انقلابی تبدیلیاں آرہی ہیں۔

انسانی نوکریاں اب انسان، مشین اور ایلگورتھم میں تقسیم ہورہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں آجروں کیلئے یہ بات انتہائی اہمیت اختیار کرچکی ہے کہ وہ ایسے باصلاحیت اور ہنرمند افراد کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت پیدا کریں جو تجزیاتی سوچ (Analytical Thinking)، ٹیکنیکل ڈیزائن اور ایکٹو لرننگ کی صلاحیتوں سے لیس ہوں۔

اگر کام کرنے والے افراد کی تربیت اور ان کے ہنر کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہ ڈھالا گیا تو اس سے صرف ملازمین کو ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں نہ تو متعلقہ کمپنیاں نئی ٹیکنالوجی کو اختیار کرپائیں گی اور نہ ہی وہ زیادہ اسمارٹ مسابقتی کمپنیوں کا مقابلہ کرپائیں گی۔

تازہ ترین