• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک اور پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کے بیانات میں مماثلت حیرت انگیز ہے ناقابل فہم نہیں۔ پنجاب حکومت بھی جھوٹوں کے آئی جی پر بالآخر ایمان لے آئی ہے یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کے لئے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے اصلاحاتی ایجنڈے میں کونسا نکتہ غیر آئینی، غیر قانونی ہے آج تک کسی حکمران نے بتایا نہ کوئی آئینی و قانونی ماہر تلاش کر سکا۔ الزام تراشی اور کردار کشی البتہ سب نے کی۔ کوئی دلیل نہ سوجھے تو عموماً گالی دی جاتی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری کو گالیاں بہت پڑیں۔
اب ہر طرف سے شور برپا ہے کہ لانگ مارچ ہوا تو تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروپ حملہ آور ہوں گے۔ لاشیں اٹھیں گی، افراتفری ہو گی اور جمہوری نظام ڈی ریل ہو جائے گا یہی غیر جمہوری قوتوں کی خواہش ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی اشرافیہ نے پانچ سال کے دوران خود کش حملوں کی روک تھام کے لئے کوئی موثر قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ ملک میں جب بھی حالات خراب ہوں ہمارے حکمران اسلام آباد اور سیاستدان ملک چھوڑ کر عافیت کدوں کو کیوں سدھار جاتے ہیں۔ اب بھی صدر آصف علی زرداری اسلام آباد سے دور کراچی میں بیٹھے ہیں اور ہر روز وزیراعظم دارالحکومت چھوڑ کر ان کے دربار میں حاضری لگواتے ہیں حالانکہ کوئٹہ میں سو لاشیں اٹھنے پر انہیں فوری طور پر کوئٹہ کا رخ کرنا چاہئے تھا۔
اس کے علاوہ قومی اور صوبائی حکومتوں کو اگر واقعی عوام کی فکر ہے، طاہر القادری کی جان عزیز اور لاہور و اسلام آباد کے شہریوں کی تکالیف کا احساس ہے تو انہیں نام نہاد جمہوری نظام کی بقاء و استحکام میں دلچسپی ہے تو تین ہفتے گزر جانے کے باوجود اب تک حکومت نے فرینڈلی اپوزیشن سے مل کر آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت منصفانہ، آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور دیانتدارانہ شفاف انتخابات کی یقین دہانی کیوں نہیں کرائی، دفعہ 62,63 کی رو سے بددیانت، بدنام، ٹیکس چور، قرضہ خور، عادی نادہندگان اور غنڈے بدمعاش امیدواروں کی روک تھام کے لئے الیکشن کمیشن کو با اختیار کیوں نہیں بنایا، جو ہرگز مشکل کام نہ تھا تاکہ لانگ مارچ ہو نہ کسی کی جان و مال کو خطرہ اور نہ جمہوری نظام کے ڈی ریل ہونے کا اندیشہ باقی رہے۔ مگر ٹھگ اور نوسرباز اشرافیہ کو چونکہ دھن، دھونس، دھاندلی کا یہی نظام سازگار ہے اس لئے نہ توکسی نے طاہر القادری سے مذاکرات کی ضرورت محسوس کی نہ از خود قدم اٹھایا اور نہ عوامی جذبات و احساسات کو اہمیت دی۔
پٹرول پمپ اور سی این جی سٹیشنز کی بندش، ٹرانسپورٹروں کو ڈرانے دھمکانے، پیشگی واپس کرانے اور عوام کو بم دھماکوں کا ڈراوا دے کر لانگ مارچ ناکام بنانے کی موجودہ سٹریٹجی سے تو حکمرانوں کی بوکھلاہٹ ظاہر ہو رہی ہے اور قوم کو یقین ہونے لگا ہے کہ جب تک ایران، مصر، رومانیہ، ارجنٹائن اور فلپائن کی طرح پاکستان کے عوام از خود اٹھ کر ظالم اشرافیہ کی گردن پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے ان کے عشرت کدوں پر یلغار نہیں ہو گی اور قومی جرائم کے مرتکب افراد کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر پنجروں میں بند کر کے عوامی شغل میلے کا اہتمام نہیں کیا جائے گا، ریاستی وسائل اور اقتدار پر قابض بے حس، سنگدل اور شقی القلب ٹولے کی حیلہ جوئی، بہانہ سازی اور ملی بھگت جاری رہے گی اور ہم پر بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، بے روزگاری، غربت و افلاس اور مہنگائی کا عذاب مسلط رہے گا۔
دہشت گرد ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں، مہنگائی و بے روزگاری کے سبب انسان، انسان کے خون کا پیاسا ہے معاشی عدم استحکام اور عوامی بے چینی نے سویت یونین اور یوگوسلاویہ کے ٹکڑے کر دیئے۔ بے شعور حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا اور غربت و افلاس نے سوڈان، صومالیہ اور ایتھوپیا میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی اگر خدانخواستہ ہماری موجودہ عاقبت نا اندیش نااہل و سنگدل حکمران اشرافیہ کو ایک بار پھر قوم کی قسمت کھوٹی کرنے کا موقع ملا تو پاکستان 1971ء کے تجربے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے انکار اور جنرل الیکشن پر اصرار سے ان کی جمہوریت پسندی کا پول کھل چکا ہے اور اصلاحات کے ایجنڈے سے روگردانی کے ذریعے بھی۔
مذاکرات کا وقت گزر چکا، اب یہ محض لانگ مارچ کو موخر کرانے اور ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی و مذہبی ساکھ تباہ کرنے کی سازش ہو گی، غیر متنازع، غیر جانبدار اور قابل قبول نگران حکومت کا فوری اعلان اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ ہی لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکال سکتا ہے ورنہ یہ تخت و تاج، عیش و عشرت اور پہاڑوں سے دور سمندر کنارے کیک پیسٹری پر گپ شپ سب خطرے میں ہے حامد سعید کاظمی اور فردوس عاشق اعوان جیسے درجنوں درود بمقابلہ بارود لانگ مارچ کے حق میں بول رہے ہیں۔
الطاف حسین نے قائداعظم کے بارے میں گزشتہ روز جو کہا وہ لانگ مارچ پر ڈرون حملہ تھا کہاں قائداعظم اور کہاں الطاف حسین #
چے نسبت خاک را بہ عالم پاک مگر قدرت نے ایم کیو ایم کی لانگ مارچ سے علیحدگی کے ذریعے ڈاکٹر طاہر القادری کو بچا لیا یہ شر سے خیر کا ظہور ہے (A BLESSINGS IN DISGUISE) اب طاہر القادری کے ناقدین بالخصوص تحریک انصاف اور عمران خان کو ایک بار پھر سوچنا چاہئے کہ تبدیلی کے اس ایجنڈے سے لاتعلقی ان کے لئے کس قدر مفید یا نقصان دہ ہے؟ مایوس بے روزگار بھوکے اور آتش انتقام میں بپھرے عوام کہیں اس راہ پر نہ چل نکلیں جس کی نوید میاں شہباز شریف پانچ سال سے سنا رہے ہیں۔ مایوسی اور غربت دونوں انسان کو کفر میں دھکیل دیتی ہیں۔
تازہ ترین