• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26مارچ 2019، بلاول کا ٹرین مارچ شروع ہونے سے چند روز پہلے اسلام آباد سے پاکستان پیپلز پارٹی کے میڈیا پرسن برادر نذیر ڈھوکی نے فون کیا ’’چیئرمین ٹرین مارچ پر روانہ ہو رہے ہیں۔ آپ سے شرکت کا کہنا تھا‘‘، خاکسار نے اُنہیں اپنی بیمار حالت کا یاد کرا کے معذرت چاہی، پیپلز پارٹی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات بیرسٹر عامر حسن کی وساطت سے چیئرمین نے میری صحت یابی پر جو گلدستہ بھجوایا، غالباً اُس کا بھی ذکر کیا۔ برادر کا حکم ماننا بس میں نہیں تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے میڈیا پرسن نذیر ڈھوکی نے چیئرمین کے ’’ٹرین مارچ‘‘ کا کیا تذکرہ کیا، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول تک پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستانی عوام کی جمہوری جدوجہد کے مناظر نگاہوں میں رقص کنداں ہو گئے۔ ہم نے اور ہمارے دوستوں نے اُن قریب قریب 50برسوں میں کیا کیا لکھا اور کہاں کہاں لکھا اُس کی تفصیل کا بیانیہ کارے دارد، پرانے مسودات میں سے البتہ بہت سے تحریری احساسات دستیاب ہو گئے، اُن کا مجموعی خاکہ پیش کیا جا رہا ہے، ملاحظہ فرمایئے پی پی پی کی لیڈر شپ میں جاںگسل اور جان لیوا جمہوری جنگ میں کیسے کیسے ذہنی اسباب کا القا ہوتا رہا۔ 52برسوں کی اس داستان کے پرانے دستیاب تحریری سنگریزوں کا ڈھیر کچھ اس قسم کا ہے۔

مثلاً (1) ’’ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ملنے کے بعد، بے نظیر نے جو لڑائی اپنی نوعمری میں شروع کی تھی، اُس کا آخری معرکہ گرم ہو چکا۔ یہ معرکہ بھٹو مرحوم اور اس کے دو بیٹوں کی قبروں کے گرد، بھٹو کی آخری سیاسی وارث بے نظیر اور میر جعفروں، ضیاء الحقوں اور تارا مسیحوں کے درمیان ہے‘‘۔ (2) ’’مکاروں کی یہ روایت ہو گئی ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کے ثمرات پر عیش کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اور عرصہ بعد مضبوط سیاسی قوتوں کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں‘‘۔ (3) ’’سازش کے تانے بانے عروج پر تھے، جن میں ملین مارچ، ہڑتال یا ریلی، ایوانوں میں گالم گلوچ اور میر مرتضیٰ کا قتل شامل ہیں‘‘۔ (4) ’’جب بھی پارلیمنٹ ٹوٹی، سیاستدانوں کا ایک گروہ غلام محمدوں، ایوب خانوں، غلام اسحاق خانوں اور فاروق لغاریوں کے ساتھ مل گیا‘‘۔ (5) ’’اسمبلیوں کی برطرفیوں پر عدلیہ متضاد فیصلے دیتی رہی، عدلیہ مارشل لاء کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیتی رہی۔ پارلیمنٹ متحد ہوتی تو نہ فوج کو مارشل لا لگانے کی جرأت ہوتی نہ عدلیہ متضاد فیصلے دیتی‘‘۔ (6) ’’بے نظیر بھٹو کے ساتھ عوام کی والہانہ عقیدت نے انہیں مجبور رکھا کہ وہ آصف زرداری کو ہدف تنقید بنا کر بھٹو کی بیٹی کو ڈس کریڈٹ کریں‘‘۔ (7) ’’سودا نواز شریف کی حکومت میں ہوا، کمیشن آصف زرداری کے کھاتے میں، قرضے اپوزیشن کے ذمہ، بینک لوٹنے کا الزام آصف زرداری پر‘‘۔ (8) ’’اپنی طویل رفاقت کے ساتھ لغاری نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے جس عمل سے قوم کو ششدر رکھا، اُس وقت قومی وجدان نے قرار دیا کہ اس کی حیثیت غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خاں، یحییٰ خاں، ضیاء الحق اور اسحاق خان جیسی ہے‘‘۔(9) ’’آج ڈیل نہ کی تو؟ آصف کا جواب تھا ’’کبھی نہیں کروں گا‘‘۔ (10) ’’ہر دفعہ سزا کسی زرداری ہی کو کیوں ملتی ہے اور کوئی یحییٰ خاں ہی ہر دفعہ کیوں ’’اکیس توپوں‘‘ کی سلامی سے دفنایا جاتا ہے‘‘۔ (11) 5نومبر 1996کی رات (اس رات جناب آصف زرداری کو گورنر ہائوس لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا) 70من سونے اور 72کروڑ روپے کے نوٹوں کے بریف کیس کی برآمدگی تک کا انکشاف ہوا‘‘۔ (12) ’’آصف سے وہ قوتیں خوف زدہ ہیں جو بی بی کو تنہا کرنا اور انہیں توڑنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ آپ کے سامنے ماضی کی تحریریں رکھی گئی ہیں۔ یہ تحریریں پاکستان کے طاقتوروں کا چہرہ سامنے لاتیں اور انسانی آزادی کے پرچارکوں اور مجاہدوں کو ان کے مقابل سینہ سپر دکھاتی ہیں، بلاول ٹرین مارچ اسی انسانی آزادی کے حصول کا آدرش تھا، ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ، آصف علی زرداری اور بی بی شہید کا فرزند ارجمندچیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، انسانی آزادی کا وہی علم اٹھائے، نوڈیرو کی اُن شہادت گاہوں کی جانب رواں دواں ہوا جنہوں نے انسان کے اس پیدائشی حق کے لئے کلمۃ الحق بلند کرنے کے جرم بے گناہی کے دوش پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔ بلاول نے صحیح کہا، یہ پیپلز پارٹی کا نہیں پاکستانی عوام کا قافلہ ہے اور اس نے ’’اُنہیں‘‘ یہ بھی صحیح کہا۔

’’آپ کا بیانیہ جائے بھاڑ میں‘‘۔

تفصیل کچھ ایسے ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خودپر دشمنی کے الزامات لگانے والوں سے کہا ’’ملک میں اسکرپٹ کے مطابق نہ چلنے والے غدار قرار پاتے ہیں۔ بھاڑ میں جائیں آپ اور آپ کا بیانیہ، میرا ایک نظریہ ہے جو میرا اپنا نظریہ ہے، میرا نظریہ نہیں بدلے گا آپ کا بیانیہ بدلتا رہے گا۔

اور اس بلاول کا ایک قصور یہ بیان بھی تھا جس کے مطابق ’’کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں کو اس لئے حراست میں لیا گیا کہ بھارتی طیارے انہیں اڑا نہ دیں‘‘۔

سندھ کے بعد پنجاب میں ایسا ٹرین مارچ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ ایک سچائی البتہ بلاول کے حوالے سے اپنا وجود منواتی محسوس ہوتی ہے یعنی ’’ہمیشہ بلند رہو اور آگے بڑھتے رہو‘‘۔

ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منائی جا چکی، نوڈیرو کی شہادت گاہوں سے حق کی صدائیں بلند ہوئیں، سورج بکف اور شب گزیدہ ذوالفقار علی بھٹو شاید پورا اپریل ہمارا موضوع رہیں گے۔

کسی زمانے میں کسی نے ایک سوال اٹھایا تھا۔ کیا صدر زرداری یا پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں سچ مچ کوئی سندھ کارڈ موجود ہے؟ ’’جواباً کسی نے لکھا تھا۔ ’’اس ملک میں صرف ایک ہی کارڈ ہے، جو ہمیشہ پنجاب یا پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہتا ہے‘‘۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے ’’بنگالی کارڈ‘‘ دکھایا تھا جسے لاکھوں قبروں کا کتبہ بنا کر ڈس کارڈ کر دیا گیا۔ بلوچستان نے بار بار اپنا کارڈ دکھایا لیکن اسے پھاڑ کر اکبر بگٹی سمیت سینکڑوں قبروں کے کتبے بنا دیئے گئے، رہا بیچارہ ’’سندھ کارڈ‘‘ تو وہ اب تک یہی کمال دکھا پایا ہے کہ تین ایسی قبروں کا کتبہ بنا جنہیں یاد کر کے رونے اور صبر کرنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا، اس کے وزیراعظم لیاقت علی خاں اور سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر کے تابوت لیاقت باغ راولپنڈی سے کراچی اور گڑھی خدا بخش روانہ کئے گئے، اس کے معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے کر آدھی رات کے بعد بند تابوت میں بھیجا گیا اور آبائی قبرستان میں لاوارثوں کی طرح دفن کرا دیا گیا۔

تازہ ترین