• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ٹیولپ ٹاور‘‘ لندن کا بلند ترین ٹاور بنانے کا منصوبہ

دنیا میں فلک بوس عمارتوں کے نام کس طرح رکھے جاتے ہیں؟ کچھ عمارتوں کے نام اسے تعمیر کرنے والی کمپنی کے نام پر رکھے جاتے ہیں (جیسے BTٹاور)، کسی عمارت کا نام اسے بنانے والے کے نام پر رکھا جاتا ہے (جیسے Heronٹاور) اور کسی عمارت کا نام اس میں تعمیرکی گئی منزلوں کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے (جیسے ٹاور 42)۔ کچھ عمارتیں ایسی بھی ہیں، جن کے نام رائے عامہ کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں (جیسے واکی ٹاکی ٹاور یا پھر 20فینچرچ اسٹریٹ)۔ تاہم فلک بوس عمارتوں کے نام تجویز کرنے کیلئے اختراع (Innovation) یہیں ختم نہیں ہوتی۔ لندن میں تعمیر ہونے والی شہر کی نئی فلک بوس عمارت کا نام رکھنے کے لیے فطرت سے مدد لی گئی ہے۔ لندن کے نئے مجوزہ فلک بوس ٹاور کا نام ٹیولپ ٹاور رکھا گیا ہے۔

ٹیولپ ٹاور اپنے پڑوس میں تعمیرشدہ عمارت 30 St Mary Axe (جو The Gherkin کے نام سے زیادہ مشہور ہے) کے مقابلے میں دُگنی اونچائی کا حامل ہوگا اور اس کا بالائی سِرا، لندن کے فلک بوس عمارتوں کے جنگل میں چاندی کے رنگ کے لالی پاپ کی شکل میں سب سے نمایاں ہوگا۔

305میٹر(ایک ہزار فٹ) اونچائی کے ساتھ ٹیولپ ٹاور لندن شہر کی بلند ترین عمارت ہوگی۔

ٹیولپ ٹاور، سٹی کارپوریشن (لندن کی شہری حکومت) سے پہلے سے منظور شدہ مجوزہ بلند ترین ٹاور ون انڈر شافٹ (1 Undershaft) سے بھی ایک فٹ اونچا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ون انڈر شافٹ کی تعمیر ابھی شروع ہی نہیں ہوسکی کہ ٹیولپ ٹاور نے اس سے شہر کا بلند ترین ٹاور ہونے کا اعزاز چھین لیا۔ دو سال قبل جب لندن کی سٹی کارپوریشن نے ون انڈر شافٹ کی منظوری دی تھی تو اس وقت شہر میں بلند ترین عمارت کی تعمیر کی یہ انتہائی حد تھی کیونکہ لندن شہر میں جہازوں کی پروازوں کے باعث عمارتوں کی اونچائی کو ایک حد سے اوپر لے جانے کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ تاہم ون انڈر شافٹ کے بعد ایئرپورٹ کے رَن وے کے ڈیزائن میں تبدیلیوں کے بعد اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ شہر میں بلند ترین عمارتوں کی تعمیر کی حدود کا ازسرِ نو تعین کیا جاسکے۔

ٹیولپ ٹاور کو ایک ثقافتی اور سیاحتی مقام کے طور پر تعمیر کیا جائے گا، جس میں شہر کے نظارے کرنے کے مقامات کے علاوہ کلب اور ریستوران بھی بنائے جائیں گے۔ ٹاور کے بیرونی ڈیزائن میں چھوٹی کشتی نما خول (Gondolas Pods)تعمیر کیے جائیں  گے، جو ٹیولپ کے پھول کی شیشے کی پتیوں کے گرد آہستگی سے گھومتے رہیں گے اور سیاہ ان میں بیٹھ کر چاروں اطراف میں شہر کا خوبصورت نظارہ کرسکیں گے۔

ٹاور کے آخری 12فلور پھول کے ڈیزائن پر مشتمل ہونگے اور اس میں ایک اسکائی برج بھی ہوگا، جس پر لوگ چل پھر سکیں گے۔ ٹیولپ ٹاور کے آرکیٹیکٹس کا کہنا ہے کہ اس عمارت کو خصوصی طور پر شہر کا نظارہ کرنے کے لیے تعمیر کیا جارہا ہے اور انھیں توقع ہے کہ ہر سال 10لاکھ سیاح اس عمارت کو دیکھنے کے لیے شہرکا رُخ کریں گے۔

اس ٹاور کی تعمیر کے لیے سرمایہ امریکا سے تعلق رکھنے والے ارب پتیJacob J. Safraفراہم کریں گے، جو مالیات اور جائیداد کے شعبوں میں بڑی کمپنیوں کے مالک ہیں جبکہ اس کا ڈیزائن آرکیٹیکٹ کے شعبے میں کام کرنے والے لندن کے ادارے Foster+Partnersنے تیار کیا ہے۔

ٹیولپ ٹاور کی سوچ، لندن کے میئر صادق خان کی اس تجویز کے بعد پروان چڑھی ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ لندن میں دنیا کا پہلا ’نیشنل پارک سٹی‘ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ آرکیٹیکٹس نے تجویز دی ہے کہ ٹیولپ کے ارد گرد کی زمین پر نیا پارک تعمیر کیا جائے، جبکہ اس کے قریب ہی پبلک گارڈن کے ساتھ دو منزلہ پویلین بھی بنایا جائے۔

ٹیولپ ٹاور اپنے استعمال کی توانائی خود پیدا کرے گااور اس کی تعمیر میں ایسا مٹیریل استعمال کیا جائے گا، جو کم توانائی خرچ ہوگا۔

ٹیولپ ٹاور میں ثقافتی، تعلیمی، کاروباری اور ٹیکنالوجی کے ایونٹس منعقد کیے جائیں گے۔ اس میں خالص تعلیمی سرگرمیوں کے لیے ایک بڑی جگہ بھی مختص کی جائے گی، جہاں ہر سال 20ہزار طلبا لندن کی تاریخ کے بارے میں جان سکیں گے۔

ٹیولپ ٹاور، لندن کی شہری حکومت کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت Square Mileکو ثقافتی مقام کے طور پر ترقی دینا مقصود ہے۔ اس علاقے میں ایک نیا کنسرٹ ہال اور عجائب گھر بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

لندن شہر کو ’اسکوائر مائل‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ رومیوں نے جس قدیم لندن کو تلاش کیا تھا، اس کا رقبہ 1.12مربع میل (716.80ایکڑ، 2.90مربع کلومیٹر) ہے، اس علاقے کو لندن کا Ancient Coreکہا جاتا ہے۔ لندن کی شہری حکومت اب اس ’اسکوائر مائل‘ کو ’کلچر مائل‘ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

سٹی کارپوریشن (لندن کی شہری حکومت) سے منظوری کے بعد ٹیولپ ٹاور کی تعمیر کا آغاز 2020ء میں ہوگا اور توقع ہے کہ اسے 2025ء میں مکمل کرلیا جائےگا۔

تازہ ترین