• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ کا دامن اپنے اندر ایک واضح سبق سمیٹے ہوئے ہے جسے ہمارے اکثر سیاستدان اور چند دانشور سمجھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ سبق یا اصول یہ ہے کہ قومی اتحاد کی علامتوں کو کمزور کرنا یا متنازعہ بنانا کبھی بھی قومی مفاد میں نہیں ہوتا۔ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو کمزور اور متنازعہ بنانے کا نتیجہ صوبائیت اور علاقائیت کی صورت میں نکلا جس کا جن اب بوتل سے نکل کر قومی یکجہتی کے لئے خطرہ بن چکا ہے اگر مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں جن کا ہمارے اخبارات میں اکثر چرچا رہتا ہے تو اس میں ملک کی نظریاتی بنیاد کا بھلا کیا قصور تھا؟ یہ کیا دھرا حکومتوں اور سیاستدانوں کا تھا ورنہ نظریاتی بنیاد تو منصفانہ برتاؤ کا تقاضا کرتی تھی۔ ہمارے دو معروف دانشور اکثر پاکستان کی نظریاتی اساس کو مطعون کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان کا فرمان ہے کہ فوجی حکومتوں نے اپنے آپ کو اقتدار میں محفوظ بنانے کے لئے پاکستان کی نظریاتی شناخت سے فائدہ ا ٹھایا اگر اس کی یہ بات مان بھی لیجئے تو پوچھنے میں حرج نہیں کہ اس میں اس بیچارے نظریے کا کیا قصور جس نے کروڑوں لوگوں کو متحرک کیا اور ان کے دلوں کو گرمایا۔ قصور ان کا ہے جنہوں نے اسے اپنے عزائم کے لئے استعمال کیا۔ ویسے تاریخی تجزیہ ہمارے نظریہ مخالف لکھاریوں کے فرمان کی نفی کرتا ہے۔ پاکستان پر دو طویل فوجی حکومتیں جنرل ایوب خا ن اور جنرل پرویز مشرف کی تھیں۔ دونوں اپنی نوعیت اور نظریاتی حوالے سے سیکولر اور غیر نظریاتی تھیں۔ جنرل شیر علی نے نظریاتی نعرے اپنی ذاتی حیثیت میں لگائے ، یہ یحییٰ حکومت کا ماٹو ہرگز نہیں تھا اور ضیاء الحق نے ماضی سے قطع نظر نفاذ اسلام کو اپنا منشور بنایا اور اسی میں اپنی سیاسی بقاء کا راز پایا۔اسی ساری کھینچا تانی، نعرے بازی اور بحث و تمیحص کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی اتحاد کی نظریاتی علامت کمزور ہوئی اور صوبائیت ،علاقائیت نے اس کی جگہ لے کر قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کردیا۔ آج اگر بلوچستان کے حوالے سے ماضی کی بے انصافیوں، غلط پالیسیوں اور فوجی اقدامات کا ذکر ہورہا ہے تو اس میں پاکستان کی نظریاتی بنیادکا کیا قصور؟ نظریاتی بنیاد تو تمام علاقائی اکائیوں سے منصفانہ سلوک اور برادرانہ رویے کا تقاضا کرتی ہے لیکن ہمارے حکمران ان تقاضوں کو پامال کرتے رہے۔ بے انصافیوں اور غیر جمہوری اقدامات کے مرتکب حکمران ہوئے اور الزام آپ نظریے کو دیتے ہیں ۔ یہی وہ صوبائیت ہے جس کے بارے قائد اعظم نے 1948ء میں وارننگ دی تھی اور اس زہر کو قومی جسم سے نکالنے کی نصیحت کی تھی۔ ہم نے نصیحت فراموش کردی، سزا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ملی۔
میرے نزیک قائد اعظم قومی اتحاد کی ایک علامت ہیں۔ وہ بابائے قوم اور پاکستان کے بانی ہیں۔ اس حوالے سے وہ ہمارے”محسن عظیم ترین“ ہیں۔ پاکستان نہ بنتا تو ان سیاستدانوں کو کون اس طرح سیاسی دکانیں چمکانے دیتا۔ یقین نہیں آتا تو ہندوستان پر نظر ڈالو، وہاں آپ سے زیادہ قابل اور اہل مسلمان سیاستدان موجود ہیں لیکن کانگرس کے پھٹو بننے پر مجبور ہیں۔ یہاں آپ تقریر کرتے ہیں تو پچاس ٹی وی چینل آپ کی تقریر سناتے اور آپ کا چہرہ گھنٹوں دکھاتے ہیں اور ہزاروں کا مجمع تابع محمل بنا سر ہلاتا ہے، پھر بھی اگر آپ ہندوستان جاکر اعلان کریں کہ اگر میں 1945-46ء کے انتخابات کے دوران موجود ہوتا تو پاکستان کے خلاف ووٹ دیتا تو ہم اس سے کیا مراد لیں؟ یہی ناکہ آپ قیام پاکستان کے مخالف ہیں لیکن قدرت کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ قدرت کا جبر یہ کہ آپ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے اس لئے آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا، کوئی آپشن نہیں تھی۔ چلئے چھوڑئیے اس موضوع کو، یہ ایک لاحاصل بحث ہے لیکن خدا کا شکر ادا کیجئے کہ جس ملک کے قیام کے خلاف آپ جدوجہد کرنا چاہتے تھے اس ملک نے آپ کو لیڈر بنادیا۔ جس ملک کے لیڈر آپ بنے، اس کا قیام قائد اعظم کا کارنامہ تھا۔ اس لحاظ سے تھوڑا سا احسان قائد اعظم کا بھی مان لیجئے یہ الگ بات کہ اس ملک میں ناشکروں اور احسان فراموشوں کی کمی نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قائد اعظم ہمارے قومی اتحاد کی ایک علامت ہیں۔ انہیں متنازعہ بنا کر آپ کوئی قومی خدمت سرانجام نہیں دے رہے۔ قائد اعظم کے فیصلوں سے اختلاف آپ کا حق ہے لیکن ان کی ذات پر حملے اور انہیں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا قائد اعظم کو متنازعہ بنانا اور بابائے قوم کے احترام کو گھٹانے کی جسارت ہے۔ یقین رکھیئے قائد اعظم کی ذات پر حملے کرنے والے، ان پر بہتان لگانے والے اور انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے پاکستانی قوم کی محبت سے محروم ہوجائیں گے اور کبھی بھی قومی سطح پر ابھرنے کا خواب نہیں دیکھ سکیں گے۔ جس عظیم کردار اور آہنی شخصیت نے انگریزوں اور کانگریس جیسی قوتوں کو شکست دے دی اس شخصیت سے آج بھی ٹکرانے والے اپنا ہی نقصان کریں گے۔رہے ہمارے محترم الطاف حسین تو ان کا قائد اعظم پر یہ پہلا ڈرون حملہ نہیں، ان کا قائد اعظم پر تیسرا ڈرون حملہ ہے۔ پہلا حملہ وہ تھا جس میں انہوں نے قائد اعظم کو سیکولر قرار دیا، میں اس کا جواب دے چکا، سیکولر کے جو معانی مرضی ہے نکالئے بات لادینیت پر ختم ہوتی ہے۔ قائد اعظم کا تصور پاکستان بہرحال اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا تصور تھا اور اسلامی ریاست سیکولر ریاست نہیں ہوسکتی لیکن سیکولرازم کی آڑ میں دانشور جن روشن اصولوں کا ذکر کرتے ہیں وہ بذات خود اسلامی طرز حکومت کا حصہ ہیں۔ ان کا دوسرا حملہ قائداعظم کے عقیدے کے حوالے سے تھا جس کا جواب دیا جا چکا ویسے قائد اعظم کے عقیدے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی بحث کا جواز باقی نہیں رہتا۔ قائد اعظم ایک پکے اور سچے مسلمان تھے اور بس۔
جناب الطاف حسین کا قائد اعظم پر چند روز قبل تیسرا حملہ اکثر پاکستانیوں کے دلوں پر چرکے لگاگیا۔ انہوں نے ڈرون حملے کا اعلان کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بار ان کا نشانہ بابائے قوم ہوگا۔ اس حملے کا سبب دوہری شہریت کا قانون ہے جس کا جواز فراہم کرنے کے لئے ایم کیو ایم کے قائد نے قائد اعظم کو تختہ مشق بنایا اور قائد اعظم پر برطانوی بادشاہ سے وفاداری کا الزام لگایا جبکہ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے بہترین سال برطانوی غلامی کے خلاف جدوجہد میں گزاردئیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس دور کا آج کے دور سے موازنہ ہی غلط اور غیر منطقی ہے کیونکہ وہ دور غلامی تھا اور ہم ایک سخت استعماری قوم کے غلام تھے جبکہ آج کا دور آزادی اور برابری کا دور ہے۔ قائداعظم نے آزادی فوجی قوت سے نہیں بلکہ آئینی قانونی جدوجہد اور ذہنی قوت سے حاصل کی تھی۔ آئینی اور قانونی آزادی قوانین کے ذریعے ملتی ہے۔ قیام پاکستان انڈین انڈپینڈس ایکٹ(Indian Independence Act)کے ذریعے ظہور پذیر ہوا جسے برطانوی پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ یہ ایکٹ ایک غلام ملک کے لئے تھا جسے”ڈومینن“ کا درجہ دیا گیا تھا۔پاکستان اور ہندوستان کو اپنے اپنے دستور بنانے تک ڈومینن ہی رہنا تھا۔ ہندوستان نے1949ء میں دستور سازی مکمل کرلی لیکن ہم 1956ء میں دستور بنانے میں کامیاب ہوئے۔
گورنر جنرل کی تقرری کی علامتی منظوری برطانوی بادشاہ یا ملکہ سے لی جاتی تھی۔ علامتی منظوری یوں کہ تقرر ی یا انتخاب تو ملک خود کرتا تھا یعنی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کرتی تھی لیکن رسمی منظوری برطانیہ سے لی جاتی تھی جسے اس میں ردوبدل کا ہرگز اختیار حاصل نہیں تھا۔ جس حلف کا ذکر جناب الطاف حسین نے کیا ہے وہ ہندوستان آزادی قانون کا حصہ تھا اس حلف کا پہلا حصہ اس کی اصل روح ہے جس کا ذکر جناب الطاف حسین نے ذکر نہیں کیا۔ اس کا ذکر نہ کرنا بے انصافی اور بدنیتی ہے۔ قائد اعظم کے بطور اولین گورنر جنرل کے حلف کے الفاظ درج ذیل تھے۔
I Muhammad Ali Jinnah do solemnly affirm true allegiance to the constitution of Pakistan as by law established ,and that I will be faithful to his Majesty King George the sixth his heirs and succossers in the office of governor genoral of Pakistanہ
ترجمہ:۔میں ا ظہار حلفی کرتا ہو ں کہ میری سچی وفاداری اطاعت پاکستان کے آئین سے ہے اور یہ کہ میں برطانوی بادشاہ جارج ششم اور اس کے جانشینوں سے بطور گورنر جنرل وفادار رہوں گا۔ بحوالہ خالد بن سعید صفحہ307اور قیوم نظامی قائد اعظم صفحہ نمبر48۔
جناب الطاف حسین نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے پہلے گورنر جنرل کے حلف کے وہ فقرے قابل ذکر نہ سمجھے جن میں قائد اعظم نے آئین پاکستان سے سچی وفاداری اور اطاعت کا یقین دلایا تھا۔ کیا جناب الطاف حسین اور ڈاکٹر طاہر القادری نے غیر ملکی شہریت کے لئے جو حلف اٹھائے ہیں ان میں آئین پاکستان کی سچی اطاعت کا ذکر ہے؟ کیا انہوں نے برطانیہ اور کینیڈا سے وفاداری اور جنگ کی صورت میں پاکستان کے خلاف لڑنے کے جو حلف اٹھائے ہیں وہ غلامی سے آزادی کے سفر کا حصہ ہیں یا اپنی مرضی اور درخواست کا نتیجہ؟ان کے حلفوں میں قائد اعظم کے حلف سے کیا موازنہ ؟حلف کے حوالے سے الطاف حسین صاحب نے ایک اور ڈنڈی بھی ماری۔ فرمایا نہرو نے تو یہ حلف نہیں اٹھایا تھا۔ حضور والا نہرو اور لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے جنہیں قانون کے مطابق گورنر جنرل نے مقرر کرنا تھا۔ ان کا حلف اپنی حکومت نے تحریر کرنا تھا۔ وہ برطانوی قانون کا حصہ نہیں تھا چنانچہ جو حلف نہرو نے اٹھایا وہی حلف لیاقت علی خان نے اٹھایا۔ آپ وزیر اعظم نہرو کا مقابلہ گورنر جنرل سے کیوں کررہے ہیں؟ اس حوالے سے قائد اعظم کا جو پاسپورٹ دکھایا گیا وہ برٹش انڈیا کا جاری کردہ تھا نہ کہ حکومت برطانیہ کا۔ شاید آپ بھول گئے کہ ہندوستان برطانوی ایمپائر (سلطنت) کا حصہ تھا۔ ہم سب رعایا تھے۔ ہندوستان کالونی تھا اس لئے پاسپورٹ برٹش انڈیا کی جانب سے جاری ہوتے تھے جس کا مطلب ہندوستان کا شہری تھا نہ کہ برطانیہ کا۔ برطانیہ کے شہریوں کے لئے جو پاسپورٹ جاری ہوتے تھے ان پر گریٹ برٹین لکھا ہوتا تھا۔ یہی پاسپورٹ نہرو اور گاندھی کا تھا جو قائد اعظم کا تھا۔ اس سے آپ نے دوہری شہریت کا نتیجہ کیسے نکال لیا؟ موضوع تفصیل طلب ہے لیکن کالم محدود۔
گزارش ہے کہ اپنی دہری شہریت کا جواز ڈھونڈھنے کے لئے بانی پاکستان کی عظیم شخصیت کو متنازعہ نہ بنائیں اور نہ قومی اتحاد کی علامتوں کو کمزور کریں۔ یہ توقع کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ جناب الطاف حسین نے جس طرح میڈیا کے حوالے سے معذرت کی ،سپریم کورٹ سے معافی مانگی اسی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائد اعظم کے حوالے سے بھی قوم سے معذرت کریں گے کیونکہ ان کے بلا ضرورت تبصروں نے اکثر پاکستانیوں کے جذبات مجروح کیے ہیں۔ غلط بات پر معافی مانگنا عظمت ہے اور اس پر اڑجانا حماقت!!
تازہ ترین