• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اولادوں سے مل بیٹھنے، اپنی سنانے ان کی سننے کا دن۔ چند ہفتوں سے ہم نے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ہم کلام ہونے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ بہت داد مل رہی ہے۔ بہت سے احباب اپنی گفتگو سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہم آئندہ موضوع سخن پر بھی بات کیا کریں گے۔ آج ان سے پوچھیں کہ کیا وہ خوابوں میں پرواز کرتے ہیں۔ میں تو کئی سال تک اپنے شہر کے مختلف حصّوں پر اڑتا رہا ہوں۔ بہت عجب لطف آتا تھا۔ آپ بھی کبھی نہ کبھی ضرور اڑے ہوں گے۔ ماہرین نفسیات اس کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل جاتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

عارف والا کے فیاض میں جب عقابی روح بیدار ہوئی اور وہ اپنی منزل آسمانوں میں تلاش کرنے نکلا تو اقبال کے شاہیں کو عارف والا کی پولیس نے گرفتار کرلیا اور اس کا ہوائی جہاز بحقِ سرکار ضبط کر لیا۔

اکیسویں صدی میں ایسا ہو رہا ہے۔ در اصل ہم ایسے خطّے میں رہ رہے ہیں جہاں جدت اور جرأت کو تخلیقی اور تحقیقی نظر سے نہیں بلکہ تشکیکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ نوجوان جو جہاز بنا بھی رہا اور اڑا بھی رہا ہے یہ ضرور کسی پراسرار مشن پر ہے۔ یہ را یا موساد کا ایجنٹ ہو سکتا ہے۔ ہم اپنے مشرق و مغرب میں سازشی دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے واقعات و معاملات کو ہم سلامتی کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ کسی حد تک یہ گرفتاری درست تھی کہ فیاض نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور ممکنہ طور پر دوسروں کی بھی۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے موجدانہ مزاج رکھنے کے لئے شہروں، محلّوں اور درس گاہوں میں سازگار اور حوصلہ افزا ماحول نہیں ہے۔ وہ جو قانون کے سگے ہیں، جو ہر قاعدے ضابطے سے بالاتر ہیں، قانون کے رکھوالے ان پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالتے۔

وہاں ذاتی مہم جوئی تو ہو سکتی ہے غریبوں کی بیٹیاں بھگا کر لے جائیں، چھوٹے خاندانوں کے نوجوانوں کو اپنی مہنگی کار تلے روند دیں تو پولیس حرکت میں نہیں آتی۔ ان اونچے شملوں، بڑی حویلیوں، ڈبل کیبنوں والے گھبرئوں سے ایسی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کوئی جہاز یا کوئی اور مشین بلا اجازت ایجاد کر لیں۔ تو دست اندازیٔ پولیس کے قابل ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ لیکن عارف والا کا فیاض ان بااثر خاندانوں سے نہیں، عام پاکستانی تھا۔ فیاض پڑھا لکھا نہ دولتمند۔ ایسے کنگال اور ناداروں کے صرف ذہن ہی زیادہ رسا نہیں ہوتے ان کے تخیّل کی اڑانیں بھی بہت بلند ہوتی ہیں۔

پولیس نے تو جو کیا، اس کے بس میں یہی تھا۔ عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ بھی:

فکر ہر کس بقدر ہمتِ اوست

لیکن فیاض کے محلّے والے، گائوں والے بھی تو اس نوجوان کو جہاز بنانے کے مراحل سے گزرتے دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کا قومی فرض تھا کہ اس سے تعاون کرتے۔ اسے راستہ بتاتے۔ اس علاقے کے کونسلر نے کیوں دلچسپی نہ لی۔ مسجد کے امام نے اسے اہم کیوں نہیں سمجھا۔ قریب ہی کوئی گورنمنٹ کالج سرکاری یونیورسٹی ہو گی یا پرائیویٹ تعلیمی ادارے، انہوں نے اس سے رابطہ کیوں نہیں کیا۔ آخر ہم کس قسم کا معاشرہ ہیں۔ ہم ایسی ندرت اور جدت کی طبع رکھنے والے پاکستانی کو اثاثہ کیوں نہیں سمجھتے۔ یہاں کوئی ایم این اے ہو گا، کوئی ایم پی اے، ان کو ان اُڑانوں کا علم تو ہوا ہوگا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا؟

آفریں ہے فخر عالم پر کہ اس نے چک نمبر 32ایس پی ٹبر کے فیاض کی تخلیقی پرواز کو ٹویٹر کے لائق خیال کیا اور نوجوان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے معاشرے سے حکومت سے اپیل کی۔ اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ ٹویٹر کی روش پر گامزن پاکستانی بھی جدید سوچ رکھتے ہیں۔ اپنے خاکستر میں ایسی چنگاری کے بھڑکنے سے خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے بھی فخر عالم کی تائید کی۔ تب سرکار کو بھی کچھ احساس ہوا کہ فیاض ملزم نہیں، موجد ہے۔ یہ مجرمانہ رجحانات نہیں بلکہ سائنسی اندازِ فکر رکھتا ہے۔ میں نے جب اس سے رابطہ کیا تو وہ پولیس اسٹیشن میں بیٹھا تھا مگر اس نے بڑے طربیہ انداز میں بتایا کہ اللہ کا شکر ہے، سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

’’اب کیا ارادے ہیں‘‘۔ میرے سوال کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ اب میں حکومت سے اجازت لینے کی کوشش کروں گا۔ پھر اپنے ہوائی جہاز کو اور بہتر، پائیدار انداز میں بنائوں گا۔

وہ بہت مصروف لگ رہا تھا۔ اس کے چاہنے والے اس کے گھر پہنچے ہوئے تھے۔ 30سالہ فیاض سے میں نے دریافت کیا کہ یہ خیال کب آیا تھا۔ اس نے 2013کا سال بتایا۔ 2013میں میاں نواز شریف پاکستان کی فضائوں میں پرواز کے لئے منتخب کئے گئے تھے۔ آصف علی زرداری کو سندھ کی راجدھانی ملی تھی اور اب 6سال بعد سندھ میں آصف علی زرداری ہی ہیں۔ میاں نواز شریف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ایک طرف ہمارے یہ قائدین ہیں، جو ملک و ملّت کو پستیوں میں لے جاتے ہیں۔ کپتان عمران خان اب تک ٹیک آف ہی نہیں کر سکے۔ وہ مسافروں کو ہنگامی حالت میں جہاز سے اترنے کے طریقے ہی بتاتے رہتے ہیں۔ عارف والا ان کے دو ساتھیوں بلکہ دو متوقع وزیراعظموں کے زیر اثر سیاسی علاقے میں ہے۔ وہ اس نوجوان سے رابطہ کرتے تو یہ انہیں کم از کم 1000فٹ کی بلندی تک تو اپنے سرمائے سے لے جا سکتا تھا۔

جہانگیر ترین صاحب اس میں اپنی نیک کمائی لگاتے تو یہ چند ہزار فٹ اور بلند ہو سکتا تھا۔ شاہ محمود قریشی کی فصاحت و بلاغت اسے میسر آ جائے تو یہ 21ہزار فٹ تک اڑنے والا جہاز بھی بنا سکتا ہے۔

فیاض جیسے تخلیقی فکر اور ذہنِ رسا رکھنے والے کو کسی انجینئرنگ یونیورسٹی کی طرف سے سرپرستی کی ضرورت ہے۔ یہ اصلی ہیرو ہے۔ اور نجانے کتنے فیاض ہیں جو پر نہیں طاقتِ پرواز رکھتے ہیں۔ کوئی بینک، کوئی یونیورسٹی ان کے سر پر ہاتھ رکھے۔

جوانوں کو مری آہ سحر دے

پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے

خدایا! آرزو میری یہی ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے

تازہ ترین