• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی اپنے پائوں پہ کلہاڑا مارنے کا اتنا مشاق ہوگا، پھر بھی آ بیل مجھے مار پہ اتنا مصر۔ شاید جنرل یحییٰ خان کی بدمستی کے بعد آج یہ منظر عمران خان کی حکومت میں ہر روز دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لگتا ہے ابھی انتخابی گرما گرمی نہیں گئی اور نااہلی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ معاملاتِ  ریاست اچھے نہیں تو اتنے بگڑے ہوئے بھی نہیں تھے کہ سنبھالے نہ جا سکتے۔ اور جب سنبھالے نہیں جا رہے تو تحریکِ انصاف والے ہر ایک کا منہ نوچنے میں کوئی کسر ہے کہ نہیں چھوڑ رہے۔ جانے کیوں ہر وزیرِ خزانہ ذمہ داری سنبھالنے کی بجائے، دیوالیہ دیوالیہ کا شور مچا کر منڈی کو ہراساں اور کاروبارِ زندگی کو اتنا بے یقینی کا شکار کر دیتا ہے۔ یہ کام شوکت عزیز نے کیا اور آئی ایم ایف سے پناہ مانگی، پیپلز پارٹی کے وزیرِ خزانہ نے بھی واقعی نادہندہ ہونے سے بچنے کے لئے ایسا کیا، اسحاق ڈار نے بھی کیا، لیکن جلد ہی بدحواسی پر قابو پا کر۔ اور اب ہمارے آدھے انقلابی اسد عمر ہیں کہ ہر دوسرے روز دیوالیہ دیوالیہ کی گردان دُہرا کر واقعی ستیاناس کرنے پہ تُلے ہیں۔ آٹھ ماہ تک تھو تھو کرنے کے بعد وہ اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہ مجبور ہیں جس کے پاس لاعلاج بیماریوں کے آزمودہ نسخے ہیں کہ عادی بیمار پر اب وہ بے اثر ہو چکے۔ پھر بھی وہ یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ بس آخری بار۔ اور ہر آخری بار کے بعد جب بیماری پھر سے عود کر آتی ہے تو بادلِ ناخواستہ پھر اُسی عطار کی عطائی پہ بھروسہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ نیا پاکستان والے نومولود حکمراں اب تک یہی طے نہیں کر پا رہے کہ اُنہیں کاروبارِ معیشت کو کس سمت میں لے جانا ہے اور اس ملک کا کیا بنانا ہے۔

نئے پاکستان کے بابرکت آٹھ ماہ میں معاشی نمو تقریباً آدھی (3.5فیصد) رہ گئی، صنعت چل رہی ہے نہ زراعت اور کوئی بے یقینی کے سمندر میں پیسہ گنوانے کو تیار نہیں۔ مہنگائی ہے کہ دوہرے ہندسے (9.4فیصد) کو چھو رہی ہے۔ کاسۂ گدائی توڑنے والوں نے خیر سے آٹھ ماہ میں 3400 ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ لادا ہے اور اب یومیہ قرض خوری 14ارب روپے ہے۔ حکومتی قرض اب 27.6 کھرب ہو چکا۔ قرضوں کی قسط اور سود نکال کر بڑھتے خرچوں اور گھٹتے محصولات (318 ارب) کے باعث ملک پھر بڑے مالی خسارے سے دوچار ہے! (اسٹیٹ بنک رپورٹ)۔ چشمِ بددُور! اقوامِ متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن کے مطابق جنوبی ایشیا میں پاکستان معاشی نمو میں سوائے افغانستان کے سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ 2019 میں بھارت کی نمو 7.2 فیصد، بنگلہ دیش 7.3فیصد، نیپال اور مالدیپ 6.5 فیصد اور 2020میں پاکستان کی معاشی نمو 3.6فیصد رہے گی۔ معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق 20لاکھ نوکریاں تو کہاں ملنی تھیں، اُلٹا دس لاکھ لوگ اِس سال بیروزگار ہوئے اور چالیس لاکھ خطِ غربت سے نیچے گر گئے۔ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے ایک اور رُکن اشفاق حسن خان کے تخمینے کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) پندرہ فیصد کم ہو کر 330 ارب ڈالرز سے 280 ارب ڈالرز ہونے کو ہے۔ مہنگائی کا طوفان ابھی شروع ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس تو اب قرضوں کی ادائیگی اور بڑھتے دفاعی اخراجات (کل چار کھرب) کے لئے بھی پورے پیسے نہیں۔ سابقہ فاٹا کے لئے وزیراعظم نے جس ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے، اُس پر صوبے بشمول پختون خوا اپنا حصہ کٹوانے پہ تیار نہیں۔ اب وزیراعظم کیا کرے سوائے اس کے کہ پرانے منصوبوں پر اپنی تختیاں آویزاں کرتا پھرے۔ لیکن تیل ابھی نہیں نکلا، ذرا آئی ایم ایف کا معاہدہ ہو لینے دیں اور اگلا بجٹ آنے دیں، پھر دیکھئے کہ کیسی مہنگائی و کساد بازاری (Stagnation) کی سونامی آئے گی۔ ماضی کے سایوں کے تعاقب یا پھر منی چینجرز کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگنے سے ڈالر نیچے آنے سے رہا۔ کہیں یہ نہ ہو کہ دولت ناپید ہو جائے اور روپیہ قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے۔

چھوڑیئے اس بلڈی معیشت کے قصے کو، یہ حکومت کے بس میں نہیں۔ ذرا زورِ گفتار یا دشنام طرازی تو ملاحظہ ہو۔ بھئی جب آپ کے سیاسی مخالفین کو دن میں تارے دکھا ئے جارہے ہیں تو اُس پر آپ کو بدزبانی کا کیا ثواب ملے گا۔ مئی میں اگر فائنانشنل ٹاسک فورس نے پاکستان کی کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوںکے  بارے میں تادیبی کارروائیوں کی کارکردگی کو مشکوک پایا، تو ستمبر میں پاکستان خدانخواستہ بلیک لسٹ پر آ کر یکا و تنہا ہو سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اپوزیشن اور پارلیمنٹ کو نیشنل ایکشن پلان اور خاص طور پر دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے اعتماد میں لے کر فیصلہ کُن اور نتیجہ خیز اقدامات پر اعتماد میں لیا جاتا، وزیراعظم نے سیاسی محاذ آرائی کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم پر کلہاڑے چلانے کی اشتعال انگیزی وفاق کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ سندھ تو اس پر لڑنے کو تیار کھڑا ہے اور وزیرِ قانون پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کی تنہائی کا بدلہ لینے کے لئے وزیراعظم کو آئین کی شق 149 کے تحت سندھ پر ہلہ بولنے کا مشورہ دے رہے ہیں، جبکہ وزارتِ قانون کی حالت یہ ہے کہ یہ ایک بھی مسودئہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی پوزیشن میں نہیں۔کیا یہ وہ ہیں؟لیکن وہ نہیں جو تیزاب کے پیپوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے دیکھتے اُن میں کودنے کو ہیں، کوئی اپنے پائوں پہ کلہاڑا مارنے میں اتنا مشاق ہوگا، اور پھر آ بیل مجھے مار پہ اتنا مصر!!

تازہ ترین