• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بار الیکشن میں ایک انہونی بات ہوئی۔ ہماری خاتون اوّل نے دھماکہ کر دیا اور کہا اس مرتبہ ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے۔ سب کو حیرت ہوئی آخر ہماری شادی سے لے کر اب تک بار بار الیکشن کے مواقع آئے تو بیگم کو کبھی خیال تک نہیں آیا، بلکہ الیکشن کے مواقع پر کوئی تفریحی پروگرام بنتا تھا جو کم از کم 3چار دنوں پر محیط ہوتا تھا۔ ہم نے اس کی وجہ پوچھی، فرمایا گزشتہ ایک تہائی صدی سے الیکشن میں حصہ لینا بیکار تھا کیونکہ ایک بار پی پی پی جیتتی تھی تو دوسری بار میاں نواز شریف کی پارٹی جیتتی تھی۔ تو کیا فائدہ وقت ضائع کرنے کا، البتہ اس دفعہ عمران خان کھل کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ 5سالوں میں سوئی ہوئی قوم کو جگا دیا ہے اور ان کرپٹ حکومتوں کے خلاف تبدیلی لانے کا وعدہ کیا ہے اور لوٹی ہوئی دولت دونوں لیڈروں سے واپس لا کر نیا پاکستان بنا کر عوام کو ان جھوٹے سیاست دانوں سے نجات دلوائیں گے۔ اسی لئے انہوں نے دھرنے دئیے اور قوم کو بتایا کہ یہ دونو ں اندر سے ایک ہیں۔ بظاہر ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے کی باتیں کرکے عوام کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ہماری خوشی اس وقت دوبالا ہوئی جب ہمارے صاحبزادے بھی اس دفعہ ماں کی پیروی کرتے ہوئے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلئے تیار ہو گئے۔ تب کچھ کچھ یقین ہونے لگا کہ اس الیکشن میں ضرور تبدیلی آنے کا امکان ہے۔ جب نوجوان اور خواتین تبدیلی کا تہیہ کر لیں تو یقیناً ملک میں نئی قیادت ضرور آتی ہے۔ خاص طور پر میڈیا نے تو کپتان کپتان کا نعرہ دے کر باور کرایا تھا، واقعی ملک کے حالات تبدیل ہوکر رہیں گے۔ گو کہ اسمبلی میں چند پی ٹی آئی کے نمائندے تھے مگر وہ کرپشن کی داستانیں سنا سنا کر قوم کو جگا رہے تھے۔ اللہ اللہ کر کے الیکشن ہوئے مگر حکومت بنانے کیلئے ووٹ کم ملے اور باہر سے ممبرز کی ضرورت پڑ گئی۔ مسلم لیگ (ق) جو ماضی میں مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر وجود میں لائی گئی تھی، پھر اس نے مشرف کے جانے کے بعد پی پی پی کی حکومت میں بھی حصہ ڈال کر اپنے ماضی کو بچایا، نے عمران خان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا، خان صاحب نے دشمن کا کیچ پکڑنے میں دیر نہیں لگائی اور ساتھ بٹھا لیا گویا احتساب سے بچا لیا، پھر یہی عمل ایم کیو ایم کے ساتھ دہرایا گیا۔ البتہ واحد بلوچستان کی سیاسی جماعت تھی جس نے ساتھ دیا اس پر کوئی کرپشن کی چھاپ نہیں تھی وہ اختر مینگل کی BNPتھی جس نے وزارتیں بھی نہیں لیں دیگر دونوں جماعتیں وزارتیں لینے میں کامیاب ہوئیں۔ ان سب سے فارغ ہوکر کپتان نے اپنا سیاسی کیرئیر بنانا شروع کیا اور پھر وہی ہوا جو ماضی میں ہوتا آیا تھا۔ تمام وعدے ایک ایک کر کے ٹوٹتے گئے۔ جب ابتدا ہی غلط ہو تو پھر تحریک انصاف سے انصاف رخصت ہونا شروع ہوا۔ قوم نے دیکھا کہ وہی تیل، بجلی اور گیس کا رونا شروع ہوا۔ پہلے دور میں سہ ماہی بجٹ آتا تھا اب تبدیلی آئی تو ہر ماہ ماضی کے قرضوں کے اتارنے کے نام پر قوم پر مہنگائی کے بم گرنے شروع ہو گئے۔ وزیر خرانہ اپنے پرانے دلائل بھلا کر نئے نئے بہانے قوم کو سنانے لگے، ڈرانے لگے اور مسکرانے لگے۔ دوسری طرف ڈالر نے بھی کروٹ لے کر حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ خرانہ خالی ہے۔ 110سے بڑھ کر 145تک کا سفر صرف اور صرف 9ماہ میں طے کرکے واقعی تبدیلی کا حق ادا کر دیا۔ اب صرف IMFباقی تھا جس سے حکومت ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی مگر درحقیقت ڈر کر وقت گزار رہی تھی۔ تو اب 9ماہ گزارنے کے بعد وہ ڈر بھی جاتا رہا اور IMFسے کامیاب مذکرات طے پا چکے ہیں، جو چند ہفتوں کی مہلت کے بعد ان شاء اللہ قوم دیکھے گی کہ اصل تبدیلی تو اب آئی ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ تو کیا نکلتا، قوم کا ہی دیوالیہ پیٹ دیا اور ووٹ ڈالنے والوں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ایک طرف مہنگائی، دوسری طرف بیروزگاری، بازار خریداروں سے خالی، صنعت کار بجلی، تیل اور گیس کے بل بھر بھر کر دام بڑھانے پر مجبور، 145روپے کا ڈالر خرید کر وہ کیسے مہنگائی کا سیلاب روک سکتے ہیں۔ اوپر سے ہمارے وزیر پیٹرولیم فرماتے ہیں کہ شکر کرو ہم نے صرف 6روپے کا اضافہ کیا ہے جبکہ اوگرا نے تو 12روپے کا اضافہ کرنے کو کہا تھا۔ اگر آج کے ڈالر کا بھی حساب لگایا جائے تو تیل کی قیمت خرید75فی لیٹر بنتی ہے۔ قوم کو بتایا جائے ڈالر اور منافع آپ بڑھاتے ہیں۔ قوم کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ اگر آپ سے حکومت نہیں سنبھل رہی ہے تو واپس چلے جائیں اپنی غیر تجربہ کار ٹیم کو لے کر حزب اختلاف میں جا بیٹھیں۔ یہ نہ کہیں ہمیں معلوم نہیں تھا اتنا قرضہ ادا کرنا ہے۔ خود اس میں تو آپ نے آکر 40فیصد اضافہ 9ماہ میں کر دیا ہے۔اب کون سے سمندر سے تیل نکلے گا اور گیس کی پیداوار سے ہم فائدہ اٹھائیں گے۔ فی الحال تو پیپلز پارٹی والوں نے مرحوم ذولفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر عمران خان کے خلاف اسلام آباد پہنچ کر حکومت ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزرا جوابی کارروائی کیلئے اپنی اپنی صفیں درست کرنے کے بجائے آپس میں سیاست سیاست کھیل کر کپتان کو پریشان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ قوم کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر عمران خان اس کرپشن کو روکنے میں ناکام ہوگئے اور تمام لوٹا ہوا پیسہ واپس نہ لا سکے تو دوست ممالک بھی بدظن ہو جائیں گے اور پھر معیشت کا بّرا حال ہوگا تو ڈالر کاغذ کے نوٹوں کے برابر ہو جائے گا اور پاکستان میں تبدیلی کا آخری خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

تازہ ترین