• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی طرف سے 14 جنوری کو تحریک منہاج القرآن کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اس حوالے سے انتہائی قابل ستائش قرار پائے گا کہ پاکستان کو درپیش داخلی اور خارجی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور جمہوریت کا تسلسل قائم رکھنے کی نیت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس بحث میں نہیں اُلجھنا چاہئے کہ ایم کیو ایم نے قبل ازیں لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کیوں کیا اور بعدازاں یہ فیصلہ واپس کیوں لیا۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ہے اور جمہوریت ہی پاکستان کی بقاء اور سلامتی کا واحد ذریعہ ہے۔ آج سے دس سال قبل سیاسی جماعتوں میں یہ احساس اور ادراک شاید اس شدت کے ساتھ نہیں تھا کہ وہ ملک کے عظیم تر مفاد میں اپنی سیاسی انا کو بھی قربان کردیں۔
یہ فیصلہ کرکے ایم کیو ایم کی قیادت نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ ملک کی تمام سیاسی‘ مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اور سول سوسائٹی لانگ مارچ کے نہ صرف خلاف تھیں بلکہ وہ لانگ مارچ کرنے والوں کے خلاف بھی متحد ہوگئی تھیں۔ اپوزیشن اور حکومت کی دیگر تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر اس بات پر متفق ہوگئی تھیں کہ ملک میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا اور تبدیلی کے کسی غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی نے اپنے اس اتحاد اور اتفاق رائے کا اظہار اگلے روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام منعقدہ کانفرنس سے منظور کردہ متفقہ قرارداد کے ذریعے کیا۔ ملک کی کسی بھی قابل ذکر اور عوام میں اثرورسوخ رکھنے والے سیاسی‘ مذہبی یا قوم پرست جماعت نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی سول سوسائٹی کے کسی ادارے یا تنظیم نے لانگ مارچ کو درست قرار دیا۔ اگر ایم کیو ایم لانگ مارچ میں شرکت کرتی تو اُسے سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تحریک منہاج القرآن کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اُس کا سیاسی مستقبل داؤ پر نہیں لگا ہوا ہے۔ وہ ایک مذہبی تنظیم ہے‘ جسے بعض لوگ ایک فرقہ بھی قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی ہے لیکن اُنہوں نے اس جماعت کے پلیٹ فارم کو لانگ مارچ کے لئے استعمال نہیں کیا۔ اُس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ”پاکستان عوامی تحریک“ کی پاکستان کے عوام میں اتنی مقبولیت نہیں ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے لانگ مارچ کیا جاسکے دوسرا سبب یہ ہے کہ لوگوں کے جذبات اُبھارنے کے لئے ایک مذہبی تنظیم کو بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لانگ مارچ میں شرکت سے ایم کیو ایم کا سیاسی طور پر بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا۔ لانگ مارچ کی ناکامی سے جتنا ایم کیو ایم کو نقصان ہوتا‘ اتنا ڈاکٹر طاہر القادری کو نہیں ہوگا۔
پاکستان کی سیاسی اور سماجی قوتوں کی طرف سے لانگ مارچ کی وسیع تر مخالفت سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان میں ایک کیفیتی تبدیلی رونما ہوچکی ہے اور سیاسی ارتقاء مثبت سمت میں جاری و ساری ہے۔ اگرچہ غیر جمہوری قوتیں نہ تو اپنے عزائم سے دستبردار ہوئی ہیں اور نہ ہی اُنہیں ملک کو درپیش بحرانوں اور مسائل کی پروا ہے۔ اُن کے بس میں ہو تو وہ اقتدار پر اب بھی قبضہ کرلیں۔ اُنہیں پاکستان نہیں بلکہ اپنے مخصوص مفادات عزیز ہیں چاہے پاکستان مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوجائے مگر پاکستان کے عوام اور جمہوری قوتوں کی جدوجہد اور عظیم قربانیوں کی وجہ سے حالات میں بہت حد تک تبدیلی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ ان پانچ سالوں کے دوران حکومت کو گرانے کی کسی بھی کوشش میں سیاسی‘ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں اور سول سوسائٹی نے حصہ نہیں لیا۔ حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس نہیں بنا۔ کوئی تحریک چلی اور نہ ہی کوئی لانگ مارچ ہوا۔ اُن سیاسی‘ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے بھی اس بات کی حمایت کی کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے‘ جو جماعتیں ماضی میں ہر جمہوری حکومت کو گرانے میں پیش پیش ہوتی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان جماعتوں نے لانگ مارچ کی بھی کھل کر مخالفت کی تاکہ نگران حکومت کے قیام‘ عام انتخابات کا انعقاد اور جمہوری طریقے سے پُرامن انتقال اقتدار کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ان میں سے اکثر جماعتیں ایسی ہیں‘ جو صرف ”پریشر گروپس“ کی حیثیت رکھتی ہیں اور کسی بھی تحریک میں حصہ لے کر اپنی بقاء کو یقینی بناتی ہیں۔ عام انتخابات میں ان جماعتوں کو سیٹیں نہیں ملتی ہیں لیکن ان جماعتوں نے بھی جمہوری تسلسل کے لئے احتجاج کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا۔ یہ درحقیقت ایک انقلاب ہے جو پاکستان میں رونما ہوچکا ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری جو کچھ کررہے ہیں‘ وہ ”رد انقلاب“ کی ایک کوشش ہے۔ انقلاب زمین سے اُگتا ہے‘ وہ فضا میں نہیں پھل پھول سکتا۔ لوگوں کا بڑا اجتماع کرلینا انقلاب نہیں ہے۔ سامراجی‘ عوام اور جمہوریت دشمن قوتوں کو بڑے عوامی جلسے منعقد کرنے کی جدید ٹیکنالوجی ہاتھ آگئی ہے۔ اس سے عرب ممالک میں غیر حقیقی انقلاب برپا کرنے کے کچھ کامیاب تجربات بھی ہوئے ہیں لیکن ڈاکٹر طاہر القادری والا انقلاب قطعی طور پر مصنوعی ہے۔ تحریر اسکوائر بنانے والوں کی کچھ نہ کچھ سیاسی جڑیں تھیں لیکن طاہر القادری صاحب کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ طاہر القادری کے لانگ مارچ کے بعد بعض قوتوں نے یہ اندازہ لگالیا ہوگا کہ پاکستان میں تضادات وہ نہیں ہیں‘ جن کی نشاندہی ڈاکٹر طاہر القادری کررہے ہیں۔ پاکستان ایک وفاق ہے، یہاں تضادات دوسرے ہیں۔ ان قوتوں نے محسوس کرلیا ہوگا کہ عوام میں جڑیں رکھنے والوں کے تیور کیا ہیں اور جمہوریت کو پٹڑی سے اُتارا گیا کہ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں حالات کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟ اگر حالات بگڑے تو طاہر القادری اُنہیں کیسے سنبھالیں گے؟ پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں کے عوام اپنے اپنے زمینی حقائق کے مطابق اُن قوتوں کے خلاف اپنے دلوں میں غم و غصہ چھپائے ہوئے ہیں‘ جو قوتیں مصنوعی طور پر حالات خراب کرکے پُرامن جمہوری انقلاب کا راستہ روکنا چاہتی ہیں۔ اگر یہ راستہ اس مرتبہ روکا گیا تو یہ طوفان کا راستہ روکنے کے مترادف ہوگا۔ کسی کو آئین میں ترمیم یا اصلاحات کرانی ہیں تو وہ جمہوری راستہ اختیار کرے۔
تحریک منہاج القرآن کے قائدین یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ماضی میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی لانگ مارچ کئے لیکن وہ اس حقیقت کا اظہار نہیں کرتے کہ یہ جماعتیں اپنے اس عمل کو غلط قرار دے چکی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن والوں نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ ماضی میں جو کردار چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ادا کرتی تھیں‘ اب وہ ادا نہیں کررہی ہیں لہٰذا ایک ”سیاسی خلا“ پیدا ہوگیا ہے‘ جسے وہ پُر کر سکتے ہیں لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں کہ دیگر جماعتوں نے یہ خلا کیوں چھوڑا اور کیا وہ زمینی حقائق سے ناواقف ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ جماعتوں کے قائدین نہ تو زمینی حقائق سے بے خبر ہیں اور نہ ہی سیاست میں کوئی خلا رہتا ہے۔ ان جماعتوں کی قیادت زمین پر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ اُن کا مرنا جینا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے لوگوں کو اس بات کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکا ہے کہ پاکستان میں حالات واقعتاً تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس لئے اُن کے لانگ مارچ کی سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی میں شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ کرپشن‘ حکومتوں کی نااہلی‘ امن وامان کی خراب صورتحال‘ مہنگائی وغیرہ جیسے مسائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان مسائل کو بنیاد بنا کر ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خلاف تحریکیں بھی چلائی گئیں اور فوجی حکومتیں بھی قائم ہوئیں لیکن حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوئے۔ جمہوری نظام کے اندر سے ہی ان برائیوں کے خلاف احتساب کا نظام اُبھر رہا ہے اور بقول امریکی دانشور ول ڈیورنٹ ”جمہوریت اپنی طینت اور فطرت میں نیک ہوتی ہے۔ سیاستدان اپنا احتساب کرالیتے ہیں اور نادم بھی ہوتے ہیں“۔ جمہوریت کے خاتمے سے احتساب کا یہ اُبھرتا ہوا نظام پھر کمزور پڑ جاتا ہے اور ہر طرف تباہی پھیل جاتی ہے۔ احتساب اور اصلاحات کا آئینی اور پُرامن راستہ لوگوں نے خود بنالیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے رہنماؤں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو روکنے سے بعض وفاقی اکائیوں میں غم و غصے کی آگ جل رہی ہے‘ جس کے شعلے ہر لمحہ بلند ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس بات کا احساس نہیں کررہے ہیں اور اُنہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ انتہائی اصلاحات اگر ہو بھی جائیں تو عوام اُنہیں ووٹ نہیں دیں گے۔
تازہ ترین