• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پاکستان تبدیلی کے اذیت ناک لمحات، جبکہ تشدد، عدم استحکام اور غیر یقینی پن ناگوں کی طرح پھن پھیلائے اس کی جان کے درپے ہیں، کا کرب جھیل رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک نئے عمرانی معاہدے کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن پرانے نظام کی تباہی کسی دیوار کا انہدام نہیں ہے بلکہ یہ مصائب کا وہ گرداب ہے جس میں قوم کی ناؤ چکراتے ہوئے بمشکل اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال کے پس منظر میں پاکستان کے دفاعی اداروں کا مخصوص کردار اور سوچ کارفرما ہے۔
پاکستان میں تبدیلی چار جہتیں لئے ہوئے ہے سب سے پہلے تو ہمارے دفاعی اداروں کا قومی سلامتی کا تصور اور اس ضمن میں اُن کا کردار تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ پاک فوج روایتی طور پربھارت کو خطرہ سمجھتی ہے لیکن خطے کے معروضی حالات کی وجہ سے اب اس سوچ کے پیرائے بدل رہے ہیں۔ دوسری تبدیلی یہ ہویدا ہے کہ فوج جو پہلے خود کو سیاسی قیادت سے بالاتر سمجھتی تھی تاکہ قومی سلامتی کے امور میں اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے، آج سیاسی قیادت کے ساتھ شراکت داری، مفاہمت اور ہم آہنگی کے راستے پر چل رہی ہے۔ تیسری تبدیلی دفاعی اداروں کے امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے ہے۔ روایتی طور پر پاک فوج ہتھیاروں اور اخراجات کے لئے امریکی امداد پر انحصار کرتی ہے لیکن اب یہ مفروضہ بدل رہا ہے۔ چوتھی تبدیلی کا تعلق فوج کی ملکی معیشت کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش سے ہے کیونکہ افراط ِ زر اور غیر ملکی قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں کا جم ِ غفیر جرائم، لاقانونیت ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی دلدل میں دھنس رہا ہے چنانچہ فوج یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ معاشی بدحالی قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔
آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کا حالیہ دنوں سامنے آنے والا ایک غیر معمولی بیان ان تبدیلیوں کا واضح اشارہ دیتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اصل خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی دشمن کی طرف سے ہے۔ اندرونی دشمن سے اُن کی مراد معاشی بدحالی، ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، منظم جرائم کا رجحان، انتہا پسندی ، فرقہ واریت ، دہشت گردی اور بلوچستان میں ریاستی عملداری کو درپیش چیلنج ہے۔ جہاں تک بھارتی خطرے کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک ان دونوں ممالک کے درمیان حل طلب تنازعات کا کوئی مناسب حل تلاش نہیں کر لیا جاتا تاہم کچھ عرصے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب فوج بھارت کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے تعلقات معمول پر لانا چاہتی ہے۔ اس کی سب سے بہترین مثال دفاعی اداروں کی طرف سے تجارت بڑھانے، ویزے کے حصول میں آسانی پیدا کرنے اور سرحد کے دونوں طرف عوامی رابطوں کو بہتر بنانے کیلئے بھارت کو ایم ایف این دینے کی حمایت کرنا ہے۔ یہ ایک بہت اہم پیشرفت ہے کیونکہ بھارت کی دیرینہ خواہش تھی کہ سنگین مسائل جیسا کہ مسلہٴ کشمیر کے حل سے پہلے تجارت، عوامی رابطوں اور دیگر اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ پہلے بڑے مسائل حل ہونے چاہئیں تاکہ ان ممالک کے درمیان تناؤ کا خاتمہ ہو سکے تاہم آج پاکستان کے موقف میں انقلابی تبدیلی جی ایچ کیو کی بدلتی ہوئی سوچ کی غمازی کرتی ہے تاہم اس تبدیلی کے عمل کو ابھی بھی سرحد پر ہونے والی غیر ارادی جھڑپوں اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے کی گئی تخریبی کارروائیوں سے خطرہ ہے۔
آج پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نادر موقع ہے کہ ایک منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے ۔ ماضی میں یا تو دفاعی ادارے منتخب شدہ حکومتوں کو مدت سے پہلے ہی چلتا کرتے اور کسی اور کو اقتدار پر بٹھا دیتے یا پھر وہ خود ہی قابض ہو جاتے تاہم اس مرتبہ اگرچہ ملک مختلف بحرانوں کی زد میں رہا ہے، ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ طاقتور اور آزاد عدلیہ اور بے باک میڈیا ہے جو سول حکمرانوں کی نااہلی اور بدعنوانی کے باجود ان کو ہٹانے کے کسی بھی غیرآئینی اقدام کے راستے میں مزاحمت کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ریاست کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے فوج کو عوامی حمایت کی ضرورت ہے تاہم اس تبدیلی کو سول حکومت کی نااہلی، بدعنوانی اور ناقص نظم ونسق سے خطرہ ہے کیونکہ دفاعی ادارے مایوسی کے عالم میں، جبکہ منتخب حکومتیں توقعات پوری کرنے میں بری طرح ناکام نظر آئیں، کسی وسط مدتی نگران حکومت کا قیام عمل میں لانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں تاکہ ملک کو مسائل کے ان گرداب سے نکالا جا سکے۔
آج کے بدلتے ہوئے معروضات میں امریکہ نواز پالیسی بھی تنقید کا ہدف ہے اور اس کی وجہ دوطرفہ عوامل ہیں۔چونکہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے اب فوج کے لئے ماضی کی طرح ہر امریکی حکم کی بجاآوری ممکن نہیں ہے۔ درحقیقت اب فوج بھی ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ اس کے افغانستان میں طویل المدتی اہداف امریکہ کے قلیل المدتی اہداف سے مختلف ہیں۔ اس لئے ہمارے دفاعی اداروں کو پتہ ہے کہ اب ان کو پہلے کی طرح امریکہ سے معاونت بھی حاصل نہیں ہو گی۔ ان تبدیل ہوتی ہوئی جہتوں کی وجہ سے ملک میں سول ملٹری تعلقات میں بہتری کی فضا دیکھی جا سکتی ہے۔ اب فوج سول حکمرانوں کی حریف ہونے کی بجائے ان کی معاونت کر رہی ہے تاہم اس عمل کو دیرپا رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سول قیادت اہل ہو اور ملک میں سیاسی استحکام پایا جائے۔
اب چونکہ دفاعی ادارے ملکی معیشت کی زبوں حالی، اندرونی خطرات میں اضافے اور غیر ملکی امداد میں کمی کے خطرے کو بھانپ رہے ہیں، اس لئے ایسا لگتا ہے کہ وہ نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کا راستہ روکتے ہوئے صورتحال میں بہتری لانا چاہتے ہیں (اس پس منظر میں ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے فوج کو نگران حکومت میں اسٹیک ہولڈر بنانے اور پرانے بدعنوان سیاست دانوں سے نجات کا نعرہ معنی خیز ہے)، لہٰذا یہ ملکی تاریخ کا ایک نازک موڑ ہے… آنے والے انتخابا ت میں(تک ؟) یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ملک کو کس طرف جانا ہے۔ کیا ہم آئینی طور پر سیاسی تبدیلی کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اس نظام کی کایا پلٹنے والی ہے؟خدشہ ہے کہ اگر دفاعی اداروں نے بھانپ لیا کہ ان انتخابات میں کوئی اہل قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئے گی تو وہ انتخابی عمل کو ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر اُنھوں نے ایسا نہ کیا تو پھر گیند سول حکمرانوں کے کورٹ میں ہو گی ۔ اُن کو ملک کو سدھارنے میں ناکامی کے نتائج اور اس کے سنگین مضمرات پر غور کرنا ہو گا۔
تازہ ترین