• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تو گویا مسئلہ یہ ہے کہ الطاف بھائی ، علامہ طاہر القادری اور ان جیسے کچھ اور دوہری شہریت کے لوگوں کے حقوق کو تسلیم کر لیا جائے یعنی یہ کہ برطانوی اور کینیڈین شہری پاکستانیوں پر حاکمیت کریں، لیڈری کریں، لانگ مارچ کریں اور انہیں ایسا کھلم کھلا کرنے دیا جائے۔ اگر ایسا کرنے دیا جائے تو مجھے ڈر ہے کہیں کل کلاں اوباما اور ہیلری کلنٹن بھی ایسے دعوے نہ کرنے لگ جائیں کہ انہوں نے پاکستان کو بے پناہ ڈالرز امداد دی ہے لہٰذا یہاں حکمرانی کا اصل حق انہی کا ہے۔
الطاف بھائی کے دعوے اور ان کے اپنے ساتھ قائداعظم کے تقابلی جائزے کی طرف تو بعد میں آتے ہیں پہلے ذرا علامہ طاہر القادری کے اربوں روپے خرچ کر کے (نہ معلوم کس کے) ہنگامہ بپا کر دینے والے مارچ کی طرف آتے ہیں۔ اگر میں چشم تصور سے دیکھوں تو یوں لگتا ہے کہ لاہور سے اسلام آباد تک بسوں، کاروں، ٹرالروں کی طویل قطاریں ہیں۔ لوگ لپک لپک کر ان میں سوار ہو کر پاکستان میں انقلاب لانے کی طرف چل پڑے ہیں۔ ان کو اپنا نجات دہندہ صرف اور صرف علامہ طاہر القادری کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔ ان لوگوں نے اسلام آباد پہنچ کر خیمے گاڑ لئے ہیں، کھانے کے لئے من و سلویٰ موجود ہے کیونکہ بقول علامہ طاہر القادری شیخ الاسلام کے یہ تمام لوگ اللہ کی نصرت و تائید کے طلبگار ہیں اور اس سب کے لئے فنڈز جس کا اندازہ تقریباً ایک ارب روپے ہے دستیاب ہیں۔ باقی حوائج ضروریہ کے لئے یا تو من و سلویٰ کے بعد ضرورت ہی نہ رہے گی اور اگر پڑی بھی تو بقول بھائی عطاء الحق قاسمی کے اس کے لئے فیکٹریوں سے Pampers خریدنے کے انتظام بھی ہو چکے ہیں وگرنہ جس طاقت نے انہیں اتنے فنڈز دیئے ہیں اس کے لئے 40لاکھ لوگوں کے لئے Pampers کا انتظام کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ سو 40لاکھ لوگوں کے اس مجمعے کے پورے ہوتے ہی علامہ صاحب تشریف لاتے ہیں، لوگوں کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج رہی ہے اور اس گونج سے زرداری صاحب اگرچہ انہوں نے اپنا کراچی میں قیام طویل کر دیا ہے لیکن گونج انہیں بلاول ہاؤس تک سنائی دے رہی ہے بلکہ دہلائے دے رہی ہے۔ وہ بار بار رحمن ملک کو فون کرتے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ وزراء اسلام آباد چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، رئیسانی صاحب اپنی ہیوی موٹر بائیک پر سوار ہو کر واپس کوئٹہ کا رخ کر رہے ہیں کہ اس سے زیادہ سکون تو کوئٹہ میں ہو گا۔ طاہر القادری صاحب نے تقریر کا آغاز کر دیا ہے کسی کوکانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی لیکن ان کے خطاب کے پہلے جملے کے ساتھ ہی ہر طرف سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ سب لوگ غور سے اُن کی بات سننے لگتے ہیں۔ انقلاب کامیاب ہو گیا بھائیو، ہم اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ صدر، وزیر اعظم اور دیگر وزراء اسلام آباد سے فرار ہو چکے ہیں۔ اب آگے … بس یہیں میرے خواب کی سوئی اٹک جاتی ہے۔ اب آگے کیا۔ اب آگے طاہر القادری صاحب کیا کرنا چاہ رہے ہیں، ان کا پروگرام کیا ہے، اُن کے پاس اس کے لئے ٹیم کس طرح کی ہے، وہ خود تو کینیڈین نیشنل ہونے کے باعث کسی بھی عہدے کے لئے آئینی طور پر موزوں نہیں ہیں پھر وہ کون سے لوگ سامنے لے کر آئیں گے کس کو وزیر اعظم بنائیں گے اور کس کو صدر۔ وہ مجلسِ شوریٰ بنا کر اُس کے چیف بھی نہیں بن سکتے تو پھر کیا آئین ہی کو تبدیل کر دیں گے۔ ویسے ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ کینیڈا ہی کا آئین یہاں نافذ کر دیا جائے تاکہ باقی کاموں میں انہیں آسانی ہو جائے لیکن شاید اس آئین و قانون میں بھی الیکشن ہی کے ذریعے تبدیل لانے کے عمل کو صحیح سمجھا جاتا ہے اور ممکن نہیں کہ الیکشن ہونے کی صورت میں اس 40لاکھ کے جم غفیر کا مقابلہ ملک کے باقی 18کروڑ لوگ نہ کر سکیں۔
اس تصویر کشی کے بعد اور جو سوالات میرے ذہن میں ابھر رہے تھے ان کے جوابات کے لئے میرے پاس بس ایک ہی حل تھا کہ میں عطاء الحق قاسمی صاحب کے بھولے ڈنگر سے مشورہ کروں۔ اسی نے مجھے بتایا کہ اس نے بھی اپنے تخیل کے زور پر بلکہ اپنے وسیع علم کو استعمال کرتے ہوئے جو منظر دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ 13تاریخ کو علامہ صاحب اپنے مصاحبین کے ساتھ اپنے ڈرائنگ روم میں تشریف رکھتے ہیں۔ وہ بار بار اپنے مصاحبین سے پوچھتے ہیں کہ انقلاب لانے والے 40 لاکھ لوگ باہر آئے ہیں یا نہیں، وقت گزرتا جا رہا ہے اور انہیں بتایا جا رہا ہے کہ باہر آنے والے لوگوں کی تعداد کسی بھی صورت چند سو سے آگے نہیں بڑھ پا رہی۔ ان کے ذہن میں وسوسے ہیں کہ کہیں ایم کیو ایم کی طرح انقلاب لانے والی باقی طاقتیں بھی انہیں صرف اخلاقی مدد دے کر ٹرخا تو نہیں رہیں لیکن ان کا دل نہیں مان رہا ۔ وہ بار بار اپنے مصاحبین سے کہتے ہیں کہ
کوئی تدبیر کرو وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں شام ہوتی جاتی ہے
لیکن بھائیو وقت کسی کے کہنے سے نہیں رکتا ۔ جس طرح ایم کیو ایم کا ڈرون حملہ کچھ پھس کر کے رہ گیا لگتا یہی ہے کہ یہ ڈرون بھی پھس کر جائے گا لیکن اپنے پھس کرنے کے ساتھ ہی یہ بہت سے سوالات بھی اٹھا جائے گا۔ طاہر القادری کس کے اور کیسے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، ان کے ان تمام اقدامات کے پیچھے کس کا ہاتھ اور پیسہ ہے، اگر انہوں نے جو بقول ان کے یہ پیسہ پاکستانی اور مسلمان تنظیموں سے حاصل کیا ہے تو کیا وہ یہ سوال پوچھنے کے حقدار نہیں ہیں کہ اتنا پیسہ ضائع کر کے اور حکومت پاکستان کے بے پناہ وسائل خرچ کروا کے انہوں نے کس کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ اس تمام انتشار سے وہ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔
اور اب ذرا الطاف بھائی کے اس دعوے کی بات کہ قائد اعظم نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اور یہ کہ ان کا پاسپورٹ برطانوی تھا۔ ان سے درخواست صرف یہ ہے کہ بھائی تاریخ کو اپنے مقصد کے لئے تبدیل نہ کریں۔ قائد اعظم سے اگر کچھ غلطیاں جو کہ سیاسی تھیں سرزد ہوئیں تو یہ ان کا انسانی وصف تھا لیکن برطانوی پاسپورٹ ہونا اس وقت کی قانونی مجبوری تھی اسے اپنے ساتھ ملانا قطعی ناانصافی کی بات ہے۔
اور اب چند لائنیں سندر چند ٹھاکر کی ایک نظم سے
اُس کے ہاتھوں کا جادو ہے کہ وہ پھینٹا جاتا ہے پتے
اور ہر بار بادشاہ کے بغل میں ملتی ہے بیگم
وہ ہتھیلی پر رکی گیند ہوا میں اچھالتا ہے
اور گیند کبوتر بن کر اڑ جاتی ہے
ایک ڈبے کے آر پار گھساتا ہے جو بیس تلواریں
ڈبے سے ایک لڑکی مسکراتی باہر آتی ہے
جادوگر پیٹ سے نکالتا جاتا ہے کانچ کے گولے
ایک شہر کی گھڑیوں کا بدل دیتا ہے وقت
وہ چاہتا ہے ایک دن تاج محل غائب کر دے
ایک تالی پر بارش اور دوسری پر زلزلے لے آئے
تازہ ترین