• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی بہت سی خوش قسمتیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ قیام ملک اور آزادی کے قافلے میں شامل سیاستدانوں کے جن سلسلوں کا آغاز ہوا تھا ان میں راست باز اور ذمہ دار سیاستدانوں کا فقدان ہوتا چلا گیا۔آج ہم قیادت کے جس بحران، سیاسی جماعتوں میں آمریت، سیاسی کارکنوں کی بے تربیتی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی سیاست کا بوری بسترا گول ہونے کا رونا روتے ہیں اسکی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی، کسی بڑے مقصد کیلئے سیاست کرنے کی بجائے سیاست دانوں کے سیاست میں حصہ لینے کے اہداف محدود اور مقصدگروہی اور ذاتی ہوتے گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اسلئے کہ ہمارے بڑے بڑے کامیاب قومی رہنماؤں نے بھی اپنی سیاست کو اپنے دائروں میں محدود کر دیا اور انہی دائروں میں اپنی سیاست کا شعار بنا لیا، نتیجتاً سیاستدانوں کے کردار میں پختگی آئی اور نہ ہی عوام سیاسی شعور و اقدار کے مطلوب درجے پر پہنچ سکے۔ ایسی صورتحال میں حال ہی میں ملک کے دو مایہ ناز، راست باز ارو وسیع الذہن سیاستدانوں کی دنیا سے رخصتی پاکستانی قومی سیاست کے منظر پر بہت بڑا خلا ہے۔ آگے پیچھے دو ہفتوں میں ہی پروفیسر غفور احمد اور قاضی حسین احمد کا انتقال نظریاتی و آئینی سیاست اور اعلیٰ جمہوری اقدام پر مبنی صحت مند عملی سیاست کیلئے یقینا بڑا جھٹکا ہے۔ خاکسار کی ہر دو قابل قدر و تقلید بزرگ سیاستدانوں سے ان ایام میں بڑی قربت رہی جب وہ اپنی اپنی سیاسی زندگی کے بام عروج پرتھے اور قومی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ پروفیسر غفور احمد اور قاضی حسین احمد کی قومی سیاست میں گہری لگن سچائی اور سنجیدگی، پھر ان کی آراء، مشوروں اور فیصلوں نے ملک کے نازک دنوں میں قوم کی بھرپور رہنمائی کی اور اسکے ملکی سیاست و حالات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ پروفیسر غفور احمد1970ء کے انتخاب میں کراچی سے اس وقت قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں علاقائی سیاست کی زہریلی آندھیاں چل رہی تھیں، اور مولانا مودودی نے سنت نگر کے نہرو پارک میں اپنی تاریخی تقریر میں اس گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ خدانخواستہ اگر مشرقی پاکستان میں وہاں کی اور مغربی پاکستان میں یہاں کی بڑی علاقائی جماعتیں اکثریت حاصل کرلیں گی تو ملک کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجائیگا۔ پھر انتخاب میں عوامی لیگ کے اکثریت حاصل کرنے اور پی پی کے بطور اپوزیشن کے طور پر سامنے سے ایسا ہی ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المیہ ہوگیا۔ ستم یہ ہوا کہ باقی ماندہ پاکستان میں مارشل لا کی سیڑھی سے پی پی کی جو سول حکومت تشکیل پائی، اگرچہ اس کی بنیاد سابقہ مغربی پاکستان کے آخری انتخاب میں کامیاب امیدواروں پر مشتمل پارلیمینٹ کو ہی بنایا گیا، لیکن یہ حکومت ملک ٹوٹنے کے سانحہ سے بے نیاز فسطائیت کے راستے پر چل پڑی۔ اللہ کا کرم یہ ہوا کہ اپوزیشن پی پی کے مقابل میں حجم کی جتنی چھوٹی تھی، اتنی ہی متحرک اور باصلاحیت اور ذمہ دار بھی۔ قومی اسمبلی کے انتخاب میں متحدہ پاکستان جماعت اسلامی کے صرف 14امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان میں ڈیرہ غازی خان سے جرأت و حریت کے پیکر ڈاکٹر نذیر احمد تو ”نئے پاکستان“ کے پہلے ہی سال میں اسمبلی فورم پر اپنی بے باکی کے جرم میں شہید کر دیئے گئے۔ اسکے بعد پروفیسر غفور احمد نے جس ماہرانہ جرأت مندانہ اور ذمہ دارانہ انداز میں بطور پارلیمینٹرین کردار ادا کیا، وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا سنہری باب ہے اور آج کے پارلیمینٹرینز کیلئے ایک سبق۔ آئین سازی کے مرحلے سے لے کر، سول آمریت میں غیر جمہوری قانون سازی کے خلاف کامیاب مزاحمت، پھر متحدہ اپوزیشن کے تاریخ ساز پلیٹ فارم، ”پاکستان قومی اتحاد“ کی تشکیل میں پروفیسر غفور کی خدمات مثالی اور آج بھی قابل تقلید ہیں۔ وہ اسمبلی میں مختلف قومی مسائل اور موضوعات پر بڑی تیاری کے ساتھ جاتے اور ہر اسمبلی بحث میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ انکی گفتگو انتہائی مدلل ہوتی اور انکا سیاسی ابلاغ شرافت و شائستگی سے لبریز ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ اسکا اثر بھی گہرا ہوتا، جماعت اسلامی کے بڑے بڑے مخالف بھی پروفیسر غفور احمد کی آراء اور مشوروں کو بہت اہمیت دیتے اور ان سے رابطوں میں رہتے تھے۔ جن صحافیوں کو پروفیسر صاحب کے پارلیمانی کردار کے مشاہدے کا موقع ملا،وہ گواہی دینگے کہ انکا انداز سیاست خصوصاً پارلیمانی خدمات آج (بحیثیت مجموعی) غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے حامل اراکین اسمبلی کیلئے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
پروفیسر غفور احمد کے انتقال پرملال کے بعد قاضی حسین احمد کے اچانک انتقال کی خبر یقینا قومی سیاست کے لئے ایک بڑا دھچکا بنی ۔ اگرچہ قاضی صاحب اپنی جماعتی سربراہی کی بھاری بھر ذمہ داریوں سے تو کافی پہلے فارغ ہوگئے تھے لیکن قومی بحرانی صورتحال انہیں بے چین رکھتی۔ قاضی صاحب جیسے پرعزم اور مکمل لگن سے عشروں سیاست کرنے والی کسی بھی شخصیت کے لئے آسان نہیں ہوتا کہ بس وہ آرام کرے۔ ایسی متحرک شخصیات ہی سیاست کو سرگرم، مثبت اور نتیجہ خیز بنائے رکھتی ہیں۔ قاضی حسین احمد بنیادی طور پر اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے نقیب تھے۔ اس بڑی کاز کے لئے ان کی خدمات بے پناہ اور بے مثال ہیں۔ انہوں نے افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت اور قبضے کے دوران افغان مجاہدین تنظیموں کو متحد کرنے اور مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے پر آمادہ کرنے میں جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ افغانستان اور پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ پھر 80کے عشرے میں فرقہ واریت کی جولہر آئی قاضی حسین احمد نے اس کو بڑھنے اور بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے اہم ترین کردار ادا کیا۔ 9/11سے پہلے کشمیر کی جدوجہد آزادی کا جوکامیاب مرحلہ شروع ہوا تھا اس میں کشمیریوں کو عالم اسلام کی مسلسل حمایت دلانے کے لئے قاضی حسین احمد متحرک اور کامیاب رہے۔ وہ بطور سنیٹر ایک پارلیمانی وفد لے کر بھی 8اسلامی ملکوں کے دورے پر گئے، جہاں انہوں نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماء اسلام اور اپنی جماعت کے منتخب نمائندوں کے ہمراہ مل کر ترکی، سعودی عرب، مصر، سوڈان، کویت، قطر، ابو ظہبی اور دوبئی کے حکمرانوں، اراکین پارلیمان اور میڈیا سے صرف ایک ماہ کے عرصے میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں کھلی حمایت حاصل کی جس سے کشمیر کو بین الاقوامی مسئلے کے طور پر اجاگر کرنے میں بڑی مدد ملی۔ خاکسار وفد کے میڈیا کو آرڈی نیٹر کے طور پر اس وفد میں قاضی صاحب کے ساتھ رہا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اس دورے میں قاضی حسین احمد اور پروفیسر خورشید احمد نے متذکرہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور شخصیات سے مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے اختیار کرنے کے لئے بہت موثر ابلاغ کیا، جس پر بھارت اتنا پریشان ہوا کہ اس نے مولانا ابوالکلام آزاد کی صاحبزادی کی سربراہی میں قاضی صاحب کے پارلیمانی و سفارتی مورچے کو توڑنے کے لئے ہر اس حاکم اور سیاستدان کے پاس اپنا سفارتی وفد بھیجا، جن سے قاضی صاحب نے ملاقاتیں کی تھیں لیکن قاضی صاحب ہر حکومت اور شخصیت سے کشمیریوں کی کھلی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس پر بھارت بے حد تلملایا۔ اب جبکہ قاصی حسین احمد عملی سیاسی سرگرمیوں سے دور ہوگئے تھے، دینی سیاسی رہنماؤں اور مذہبی تنظیموں کے رہنما ان سے مسلسل رابطے میں رہتے اور اپنے باہمی اور فروعی اختلاف کو دور کرنے میں ان کے تعاون کے طالب رہتے۔ قاضی حسین احمد کے فلسطینی، چیچن اور افغان رہنماؤں سے بھی گہرے روابط تھے اور وہ مصر اور ترکی میں برپا ہونے والی تبدیلیوں پر بے حد پرامید تھے کہ پاکستان کے حالات بھی جلد بدلیں گے۔ ان کا یقین، یقین کامل اور عالم اسلام کے اتحاد و استحکام کیلئے عزم، عزم ضمیم تھا جس کے لئے وہ ہر لمحے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ۔اللہ تعالیٰ پروفیسر غفور اور قاضی حسین احمد کی تمام ملی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو… آمین
تازہ ترین