• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دسمبر2012ء کے آخری ہفتے جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد وفات پا گئے ۔ وہ 1927ء کو ہندوستان کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ کامرس میں ماسٹر کرنے کے بعد لکھنو کالج کو بطور لیکچرر جوائن کیا، قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ہجرت کر کے کراچی کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ گو یہاں آکر بھی چھ سال تک تدریس و تعلیم کا یہ سلسلہ جاری رکھا ساتھ ہی1950ء میں جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور 1958ء میں میونسپل کارپوریشن کراچی کے رکن بنے پھر 1970ء اور 1977ئکے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پروفیسر غفور احمد بہت ہی سادہ مزاج اور سیاست میں شرافت، دیانت کی ایک عمدہ مثال تھے۔ جماعت اسلامی میں ہوتے ہوئے بھی ہر مکتبہ فکر کے لوگ ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 1973ء کے متفقہ آئین بنانے والوں میں بھی ان کا نمایاں حصہ تھا۔ 1977ء میں 9جماعتوں کا جو اتحاد بنا اس کے بھی جنرل سیکرٹری رہے اور ان انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے بعد جو ایک مذاکراتی ٹیم بنی اس میں بھی ان کا بہت ہی اہم کردار تھا ۔ گو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ ان کی کابینہ میں وزیر بھی رہے مگر شاید وہ دلی طور پر اسے پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی جماعت اسلامی نے حمایت کی مگر انہوں نے ذاتی طور پر اس کی مخالفت کی تھی بہرحال وہ جماعت اسلامی کے ڈسپلن کے پابند تھے جس کا انہوں نے کئی بار اپنے انٹرویو میں ذکر بھی کیا۔ سیاسی افق پر شرافت کا یہ چراغ کیا بجھا کہ 5/اور 6 جنوری کی درمیانی شب جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد بھی اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی خبر سن اور پڑھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ ایک پُرجوش ، متحرک اور انقلابی‘ جہدمسلسل پہ یقین رکھنے والا شخص اچانک ہم سے رخصت ہو جائے گا لیکن حقیقت بلکہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ جو بھی انسان اس دنیا میں آیا ہے اُسے اپنی اصل منزل کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے۔
قاضی حسین احمد نے1970ء میں جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بنے۔ 1978ء میں اس کے جنرل سیکرٹری بنے اور1987ء سے2008ء تک تین مرتبہ یعنی 22برس امیر جماعت اسلامی پاکستان رہے۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن اور سینیٹر بھی رہے۔ پروفیسر غفور احمد اور قاضی حسین احمد کی رحلت کا ان کے خاندان اور جماعت اسلامی کو تو دکھ اور صدمہ ہوا ہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی وفات سے ملک و قوم کا بھی بہت بڑا نقصان ہے۔ قاضی حسین احمد وہ شخصیت تھے جن کی اپنی جماعت کیلئے بڑی خدمات ہوں گی۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ ان کے بے شمار وصف اور کارہائے نمایا ں ہیں۔ میں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ان میں تین پہلو ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی جو ایک مخصوص لوگوں کی جماعت ہوا کرتی تھی اور دنیا والے بھی اس کو اچھے لوگوں کا گروہ تو ضرور کہتے تھے مگر ووٹ نہیں دیتے تھے۔ قاضی صاحب نے اس کو صحیح معنوں میں ایک عوامی سیاسی و مذہبی جماعت کے طور پر ہر گلی اور ہر محلے کی سطح پر متعارف کرایا اور اپنے دور میں عام لوگوں کی رکنیت سازی کی تو 45لاکھ کے قریب لوگ اس میں شامل ہوئے۔ اس جماعت کا جو قدامت پسند امیج تھا اس کو ختم کر کے ایک پاپولر جماعت کا امیج بنایا گو اس حوالے سے بعض اوقات نظریاتی اندرونی اختلاف بھی کچھ سامنے آئے مگر آج یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہی وقت کی ضرورت تھی۔ قاضی حسین احمد کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ وہ پاکستان، اسلام اور امت مسلمہ سے شدت کے ساتھ پیار کرتے، ان کی ساری ترجیحات قومی سطح پر تمام مذہبی جماعتوں کو ایک تسبیح میں پُرونا تھا۔ ان کی لیڈر شپ کوالٹی اور ذاتی شخصیت کی وجہ سے جماعت اسلامی سے اختلافات کے باوجود ہر جماعت ان کا احترام کرتی، ان کی وفات کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ان کے بارے میں احساسات اور بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کوئی انہیں کس قدر اپنے قریب رکھتا تھا۔ پاکستان میں عام طور پر مختلف مسلک کے علماء ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھنے سے بھی کتراتے ہیں قاضی صاحب نے ہر ایک کو، ہر ایک کی امامت میں نماز پڑھنے کو بھی عملی جامہ پہنایا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کرنے کیلئے مذہبی جماعتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور پھر ملّی یکجہتی کونسل کو فعال بنانا ان کا اہم ترین مقصد تھا۔
دنیا بھر میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے وہ بہت جدوجہد کرتے اور ان میں کامیابی ان کیلئے فخر کا باعث ہوتی۔ انہیں پورے عالم اسلام میں ایک بلند مقام حاصل تھا وہ کشمیر ، فلسطین ، چیچنیا، کوسوو، اریٹیریا اور برما کے مسلمانوں کے حوالے سے غور و فکر کرتے اور اپنی تقاریر میں یہ اہم پہلو شامل کرتے۔ وہ تو بوسنیا کے جہاد کے دوران چلتی گولیوں میں مسلمانوں کی مدد کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ جہاد افغانستان کے حوالے سے ان کا بہت ہی نمایاں کردار رہا۔ افغانستان میں جدوجہد کرنے والے تمام گروپ ان کے رابطے میں تھے پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد جب اسلام اور جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کی باتیں کی جارہی تھیں تو قاضی صاحب نے بین الاقومی فورمز پر اسلام اور مسلمانوں کے کیس کو بڑے مدلل انداز میں پیش کیا۔ ان کی کوششوں سے کشمیری مجاہدین کے درمیان پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور اختلافات پر قابو پایا جاسکا۔ آج سید علی گیلانی کا ٹھیک ہی کہنا ہے کہ کشمیری عوام اپنی جدوجہد آزادی کی سرپرستی کرنے والی شخصیت سے محروم ہوگئے۔ بات تو اس سے بھی آگے ہے کہ قاضی صاحب نے ملک کے نوجوانوں کے اندر جہد مسلسل کی ایک چنگاری جلائی اور نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ ایک بڑی عمر کا شخص اگر اتنا پُرجوش اور متحرک ہو سکتا ہے تو نوجوان کیوں نہیں اور اگر نوجوان صحیح مقصد کیلئے اٹھ کھڑے ہوں تو انہیں ضرور کامیابی حاصل ہو کر رہتی ہے۔ نوجوانوں اور مخالفین پر ان کی باتوں کا اس لئے اثر تھا کہ وہ اپنی بات کو دلیل کی بنیاد پر کہتے، وہ کھری اور دو ٹوک بات کرتے اور اپنے موقف پر ڈٹ جاتے پھر انہیں خوف خدا کے سوائے کوئی اور ڈر یا لالچ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹا سکتا ۔ قاضی حسین احمد ایسے لیڈر تھے جن کے اندر ایک بین الاقوامی رہنما کی تمام خصوصیات تھیں وہ امارت سے علیحدہ ہونے کے بعد فکر و عمل کے نام سے تھنک ٹینک کی صورت میں متحرک رہے۔ آج کی سیاست میں ان جیسے اصول پسند ، صاحب بصیرت اور صاحب علم شخص کہاں ملتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال  اور ان کی شاعری کے عاشق تھے انہیں بطور شاعر فیض احمد فیض بھی بہت پسند تھے ۔ وہ اپنی گفتگو اور تقریروں میں علامہ اقبال کے کلام اور حوالوں کو بڑا معتبر رکھتے ۔ وہ واقعتا پاکستان، مسلم امہ اور قوم کی بہتری کیلئے جہد مسلسل کا ایک استعارہ تھے۔ گو قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفوراحمد سے میری چند ایک ملاقاتیں ہیں مگر میرا ان سے اتنا پرانا تعلق ہے جتنی میری عمر کیونکہ وہ میرے والد محترم کے دیرینہ ساتھی اور دوست تھے اور ان کے حوالے سے میرے والد محترم نے ہمیشہ بہت ہی محبت ، احترام اور خلوص کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دوستی اور دشمنی صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں شخصیات کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
تازہ ترین