• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب طاہر القادری اور راقم کے درمیان استاد اور شاگرد کی دوستی کا دیرینہ رشتہ اس وقت سے موجود ہے کہ جب ان کے نام کے ساتھ ابھی کوئی سابقہ اور لاحقہ نہیں جڑا تھا۔ اس رشتے کا آغاز پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ہوا جہاں وہ ہمیں اسلامی فلسفہٴ قانون کا درس دیا کرتے تھے۔ تب وہ ظاہری طور پر عجز و انکسار اور مسکنت کا استعارا ہوا کرتے تھے۔ کلاس روم میں طلباء کی اساتذہ سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ روز کا معمول تھی۔ راقم دوستوں کی منت سماجت کر کے قادری صاحب کے لئے استثنائی صورت نکالنے کی کوشش کیا کرتا جسے وہ بنظر تحسین و تشکر دیکھا کرتے تھے۔ وہ میرے لئے اس بناء پر بھی قابل احترام تھے کہ مذہبی ہونے کے باوجود وہ جماعت اسلامی کی تعبیر و تشریح دینی کے مقلد و مکلف نہ تھے اور جامعہ پنجاب پر جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے اس غلبہ و استیلاء کے پس منظر میں ایسی جسارت کوئی معمولی کام نہ تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں لاء کالج اولڈ کیمپس ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ کی اضافی ذمہ داری سونپ رکھی تھی جس کی وجہ سے ان کے اور میرے درمیان ملاقاتوں کے تسلسل کی سبیل نکل آئی تھی۔ ہم دونوں کے مابین یہ قدر مشترک تھی کہ دونوں کا شمار اسلامی جمعیت طلبہ کے ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔ راقم طلبہ سیاست کے پلیٹ فارم سے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی مخالفت کے جرم میں حوالہ زنداں ہوا اور یہ دورانیہ نو برس تک جاری رہا جبکہ طاہر القادری نے تعلقات، علم، دولت اور مقبولیت کے دائروں میں کامیابیوں کا سفر جاری رکھا اور آج کل پاکستانی سیاست میں ہلچل پیدا کر کے سب سے اہم موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس دوران کئی بار دل و دماغ انہیں موضوع قلم بنانے کی طرف مائل ہوا لیکن مقدس دیرینہ رشتہ آڑے آتا رہا لیکن اب دل یا دماغ…!! نہ جانے دونوں میں سے کس ہاتھوں مجبور ہو کر قلم بدست ہونا پڑ رہا ہے۔
میں ایک ذاتی دوست کے توسط سے جو کہ یہاں اکیسویں گریڈ کا افسر ہے اسلام آباد کے ایک پُر از سبزہ و اشجار سرکاری ریسٹ ہاؤس میں بیٹھا قلم گھسیٹ رہا ہوں۔ سردی کا زور اس قدر زیادہ ہے کہ بجلی کے ہیٹر کی گرمائش اس کے چوکھٹے پر ہی دم توڑ رہی ہے۔ گرم لباس سے خاطر خواہ طور پر جسم ڈھانپنے کے باوجود ٹھنڈ ہے کہ ہڈیوں تک اپنا پیغام پہنچا رہی ہے۔ ہمارے ہاں پڑنے والی سردی سائبیریا کے برفانی صحراؤں سے جہاں تازہ برف گرنے کے بعد برفانی ہواؤں کے جھکڑ اور طوفان جنم لے کر کابل، چمن اور کوئٹہ کے راستے ہم تک پہنچتیں ہیں عرصہ دراز کے بعد سائبیریا کے میدانوں میں یخ بستہ ہواؤں کے طوفان اٹھے ہیں۔ جناب طاہر القادری کے لاکھوں پیرووں کے جلو میں (ان کے مطابق لاکھوں) اسلام آباد کی جانب خروج کی ڈیڈ لائن بھی سائیبرین ایئرز کے ہمارے ہاں تسلسل کے دوران ہی آ رہی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس طرح کے فیصلہ کن معرکوں میں کبھی کبھی موسم کلیدی رول ادا کر جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں ماسکو کی طرف بڑھتے جرمن نازی دستے اگر موسم کے ہاتھوں نہ پٹتے تو شاید جنگ کے نتائج کچھ اور ہوتے۔ کامیاب حملہ آور بقیہ پہلوؤں کے ساتھ موسموں کو اسٹرٹیجک ترجیحات میں اولیت دیتے ہیں لیکن اپنے 23 دسمبر کے خطاب کے آخری حصے میں شاید شرکاء جلسہ کی تعداد اور جوش و خروش سے متاثر ہو کر انہوں نے فی البدیہہ شعر کی طرح اسلام آباد پر یورش و یلغار کی تاریخ کہہ ڈالی ہو۔ ایسا تصور کرنے کی گستاخی کا مرتکب اس بناء پر ہو رہا ہوں کہ مجھے ان جیسے ذکی فہیم اور گرم و سرد چشیدہ انسان سے اس کی ہرگز توقع نہ ہے کہ وہ عام حالت میں موسم کی ممکنہ کارستانی سے صرف نظر کرنے کی غلطی کرتے۔ آج خود کو ممکنہ لانگ مارچ کے انبوہ کثیر کا ایک رکن سمجھ کر سہ پہر تک میں اسلام آباد کی سڑکوں پر پھرتا رہا تاکہ اس کیفیت اور احساس کا اندازہ لگا سکوں جو جاری سرد موسم میں دوسرے شرکائے احتجاج پر اثر انداز ہو گی۔ میں فرض کئے رہا کہ مجھے کم از کم دو دن دو راتیں کہرے میں گم آسمان، دھند میں ڈوبی سڑکوں اور عمارتوں اور جسم و جان پر عذاب بن کر اترتی سردی کے ماحول میں گزارنا ہیں جبکہ میرے سامنے کوئی ایسا بلند نصب العین بھی نہ ہو جو رگوں میں بہتے خون کی حرارت کا باعث بن سکے، مجھے مشکل، بہت مشکل دکھائی دیا۔ لوگ موسموں اور حکمرانوں دونوں کی سختیاں برداشت کر جاتے ہیں بشرطیکہ ان کی عقلی اور جذباتی دنیاؤں میں ہیجان برپا کر کے رکھ دینے والی کوئی سوچ، نظریہ یا مقصد پیش نظر ہو۔ فقط انتخابی طریق کار میں اصلاح اور عبوری حکومت میں کونسا چہرہ ہونا چاہئے اور کونسا نہیں کی بنیاد پر اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کرنے کی لوگ ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس کی اس قدر کا میابی کی توقع کہ جس سے طاہر القادری صاحب مذکورہ اہداف حاصل کر پائیں۔ ان کے مقصد کا بھسبھسہ پن اور موسم کے تیور دونوں مل کر ان کے شو کی ناکامی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ علامہ صاحب کینیڈین نیشنل ہیں۔ وہ صرف مذہبی اسکالر ہی نہیں بلکہ جید قانون دان بھی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قانون سے متعلقہ درجنوں کتابوں کے مصنف، مولف اور شارح بھی ہیں 2002 کا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ ان سے زیادہ اور کس کی نظر میں اپنے ضمیر میں چھپے معانی کھول سکتا ہے لہٰذا اس کے ادراک و تفہیم کی وجہ سے ہی انہوں نے وطن مراجعت کے بعد اپنی رجسٹرڈ مگر فراموش کردہ سیاسی پارٹی کی بجائے مذہبی تنظیم تحریک منہاج القرآن کے ذریعہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے۔ اپنی دہری شہریت کی بناء پر وہ کسی سیاسی جماعت کی قیادت کر سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پہلے وہ اپنے دل میں پلتی مدتوں کی خواہش یہ کہتے ہوئے زبان پر لے آئے تھے کہ اگر انہیں نگران حکومت میں کوئی رول ادا کرنے کے لئے کہا گیا تو وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور خدمت کے جذبے کے تحت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے مگر بعد میں جب احساس ہوا کہ وہ کچھ ایسا غلط فرما گئے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں لانگ مارچ کے لئے تیار کارکنان ان کی سیاست کے لئے استعمال ہونے کے پہلو پر غور کرنا شروع کر دیں گے، فوراً اپنے آپ کو تمام مناصب سے بلند کر کے اپنے کہے سے پھر گئے (وقتی طور پر) ان کے پیروکار تذبذب اور پیچیدگی کا شکار ہیں کہ آخر علامہ صاحب چاہتے کیا ہیں۔ (جاری ہے)
تازہ ترین