• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کا آغاز ہو چُکا ہے۔ 11اپریل سے 19مئی تک جاری رہنے والے ان انتخابات کو کئی اعتبار سے اہم اور فیصلہ کُن قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ چُنائو ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ مستقبل میں یہاں سیکیولر ازم پروان چڑھے گا یا ہندو توا کی حُکم رانی برقرار رہے گی، جس کا آغاز 68سالہ ہندو انتہا پسند رہنما، نریندر مودی نے 2014ء میں پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد کیا تھا۔ گزشتہ انتخابات میں مودی کی جماعت، بی جے پی (بھارتیا جنتا پارٹی) کو زبردست کام یابی ملی تھی اور اس نے لوک سبھا میں 283نشستیں حاصل کی تھیں، جسے ’’مودی لہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم، پانچ برس بعد صورتِ حال کافی بدل چُکی ہے اور اس کا عکس مُلک میںمختلف اوقات میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے نتائج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران بی جے پی کئی اہم ریاستوں میں، جن میں مشرقی پنجاب بھی شامل ہے، شکست سے دو چار ہوئی، جب کہ دیگر ریاستوں میں اس کے جیت کے مارجن میں کمی واقع ہوئی۔ اس کے برعکس ریاستی انتخابات میں کانگریس کی، جس نے 2014ء کے عام انتخابات میں صرف 43نشستیں حاصل کی تھیں، کارکردگی خاصی بہتر ہے۔گرچہ مودی حکومت نے اقتصادی شعبے میں مجموعی طور پر اپنے وعدوں کی تکمیل کی، لیکن وہ روزگار کی فراہمی کے حوالے سے کسانوں سے کیے گئے بہت سے وعدے پورے نہ کر سکی۔ پھر اسے سب سے بڑا چیلنج اپنی ہندو توا کی پالیسی کی وجہ سے درپیش رہا، جس کے سبب انتہا پسندی اور تعصّب میں اضافہ ہوا اور بھارت کے سیکیولر امیج کے خواہش مند افراد میں خاصی مایوسی پھیلی۔ ہندو انتہا پسندی بڑھنے کی وجہ سے بھارت میں موجود سب سے بڑی مسلم اقلیت کی اہمیت روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے، جب کہ دوسری اقلیتیں بھی شدید دبائو میں ہیں۔ گرچہ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل رُونما ہونے والے پلواما واقعے اور پاک، بھارت تنائو کو بی جے پی نے اپنے حق میں استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ان انتخابات کا محور ہندو توا اور اقتصادی معاملات رہیں گے۔

لوک سبھا کے انتخابات میں 90کروڑ بھارتی شہری اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ چُنائو کا عمل 19مئی کو اختتام پزیر ہوگا اور 23مئی کو نتائج کا اعلان ہو جائے گا۔ ووٹرز، لوک سبھا کی کُل 543نشستوں کے لیے امیدوار منتخب کریں گے۔ کسی بھی جماعت کو ایوانِ زیریں میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 272نشستیں حاصل کرنا ہوں گی اور اسی جماعت کو وزارتِ عظمیٰ یا حکومت کی سربراہی ملے گی۔ بھارت میں کثیر الجماعتی جمہوریت رائج ہے۔ تاہم، مُلک کی بڑی سیاسی جماعتیں دو ہیں، بھارتیا جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس۔اس وقت بی جے پی برسرِ اقتدار ہے، جسے 2014ء میں واضح اکثریت ملی تھی اور نریندر مودی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔ کانگریس، بھارت کی بانی سیاسی جماعت ہے اور اس کے رہنما، جواہر لال نہرو مُلک کے پہلے وزیرِ اعظم تھے، جب کہ حالیہ انتخابات میں ان کے پڑ نواسے، راہول گاندھی کانگریس کی قیادت کر رہے ہیں، جنہیں اپنی بہن، پریانکا اور اپنی والدہ، سونیا گاندھی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ خیال رہے کہ کانگریس کی 72سالہ صدر، سونیا گاندھی، اندرا گاندھی کے صاحب زادے ، سابق بھارتی وزیرِ اعظم، راجیو گاندھی کی بیوہ ہیں اور ان کا آبائی تعلق اٹلی کے شہر، لوئیسانا سے ہے۔ گرچہ اپنے شوہر کی موت کے بعد سے لے کر اب تک سونیا ہی کانگریس کی قوّتِ محرّکہ ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی خود وزیرِ اعظم بننے کی کوشش نہیں کی۔ ماہرین کے مطابق، سونیا نے نسلاً بھارتی نہ ہونے کے باوجود خود کو ہر قسم کے تنازعات سے دُور رکھا اور کانگریس کو بھی کسی بڑی آزمایش سے بچانے میں کام یاب رہیں۔

بھارتی انتخابات: سیکیولرازم بمقابلہ ہندوتوا
یوپی میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمان نوجوان کی رشتے دار خواتین نوحہ کناں ہیں

بھارتی انتخابات کےلیے مُلک بَھر میں مجموعی طور پر 10لاکھ پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں ، جب کہ حقِ رائے دہی استعمال کرنے والوں کی تعداد 90کروڑ ہے، جو یورپ اور آسٹریلیا کی کُل آبادی سے زیادہ اور امریکا کی آبادی کا تین گُنا ہے۔ یاد رہے، 2014ء کے عام انتخابات میں تقریباً 55کروڑ افراد نے ووٹ کاسٹ کیے تھے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن کو فیصلہ کُن اختیارات حاصل ہیں، جنہیں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ متنازع بنایا جا سکتا ہے۔ نیز، تمام سیاسی جماعتوں کو اس کے احکامات پر مِن و عن عمل کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے اختیارات اور فیصلوں کو تسلیم کرتی ہیں، جس کی وجہ سے جمہوری عمل میں کبھی رخنہ نہیں آیا۔ انتخابات سے متعلق تمام امور کی نگرانی الیکشن کمیشن کرتا ہے اور وہیں تمام تنازعات طے پاتے ہیں، جن میں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے اثاثہ جات سے لے کر ان کی اہلیت تک کے معاملات شامل ہوتے ہیں۔ تنازعات کی صورت میں سیاسی جماعتیں عدلیہ کو زحمت نہیں دیتیں، جس کی وجہ سے انتخابی و سیاسی عمل میں پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں۔

تقسیمِ ہندوستان کے بعد بھارت میں پہلے عام انتخابات 1951-52ء میں ہوئے اور اس کے بعد سے کسی قسم کے تعطّل کے بغیر ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پہلے انتخابات 3ماہ میں مکمل ہوئے، جب کہ 1962ء سے 1990ءکے دوران یہ 4سے 10روز کی مدّت میں ہوتے رہے۔ انتخابی عمل کے طویل ہونے کا سبب بھارت کی آبادی اور ریاستوں کی تعداد میں اضافہ ہے، جو اس وقت 29ہیں، جب کہ یونین کے زیرِ انتظام علاقے اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت کی تمام ریاستیں خود مختار ہیں۔ ان ریاستوں میں بڑی جماعتوں کے علاوہ علاقائی جماعتوں کے بھی گہرے اثرات ہیں، جس کی وجہ سے یہاں اکثر مخلوط حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ کسی بھی جماعت کی ریاستی انتخابات میں کام یابی یا ناکامی کے اثرات لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج پر بھی مرتّب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست، گجرات کے انتخابات میں مسلسل دو مرتبہ کام یابی اور بہ طور وزیرِ اعلیٰ شان دار کارکردگی ہی نے مودی کو وزاتِ عظمیٰ کے عُہدے تک پہنچایا۔ چہ جائیکہ اُن کے دَورِ وزارتِ اعلیٰ میں گجرات میں مسلم کُش فسادات بھی ہوئے۔ اُتر پردیش، بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے اور اس کی آبادی 20کروڑ ہے۔ یوپی میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ 80نشستیں ہیں اور اس وقت وہاں بی جے پی کی حکومت ہے، جب کہ اس کے علاوہ مہاراشٹر کی 48، بنگال کی 42اور بہار کی 40نشستیں اہمیت کی حامل ہیں۔ 2014ء میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میں 460سیاسی جماعتوں نے حصّہ لیا تھا اور امیدواروں کی مجموعی تعداد 8,250تھی۔ ایک اندازے کے مطابق، ان انتخابات پر 5ارب ڈالرز خرچ ہوئے تھے، جب کہ اس مرتبہ 2014ء سے دُگنے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو امریکا میں ہونے والے انتخابی اخراجات سے بھی زیادہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ 2016ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر 6.5ارب ڈالرز خرچ ہوئے تھے۔ انتخابات کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کو ہونے والی فنڈنگ پر تنقید کی وجہ سے وزیرِاعظم، نریندر مودی نے ایک نئی اسکیم متعارف کروائی ہے۔ اس اسکیم کے تحت مختلف کاروباری ادارے اور شخصیات بانڈز خرید کر اپنی پسندیدہ جماعتوں کو چندہ دے سکتے ہیں اور انہیں اپنی شناخت ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے حکومتِ وقت کو فائدہ پہنچا ہے، جب کہ ماہرین کے مطابق، اس اسکیم میں مزید بہتری اور شفّافیت لانے کی ضرورت ہے۔

بھارتی انتخابات: سیکیولرازم بمقابلہ ہندوتوا
نریندر مودی

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے اور 7لاکھ بھارتی افواج کی موجودگی اور جابرانہ کارروائیوں کے باوجود تحریکِ آزادیٔ کشمیر زوروں پر ہے، کیوں کہ بھارتی حکومت مذاکرات پر آمادہ نہیں۔نیز، مقبوضہ کشمیر کے ممتاز حریّت پسند رہنما نظر بند یا جیلوں میں قید ہیں اور یہ بھارت کے جمہوری نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح بھارت میں مقیم مسلمانوں کی تعداد 22سے 25کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے، لیکن اس تناسب سے ان کی سیاسی قوّت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر اس وقت نہ تو کابینہ میں شامل کوئی قابلِ ذکر وزیر مسلمان ہے اور نہ ہی کسی ادارے کی سربراہی مسلمانوں کے پاس ہے، حالاں کہ ماضی میں ابوالکلام آزاد اور عبدالکلام جیسی نابغۂ روزگار شخصیات علی التّرتیب اس مُلک کی نائب صدر اور صدر رہ چُکی ہیں۔ اگر بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی اہمیت کو دیکھنا ہو، تو اُترپردیش کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھارت کی اس سب سے بڑی ریاست کی 20فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، لیکن برسرِ اقتدار جماعت نے یہاں کوئی ایک مسلمان امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا۔ گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی نے کُل 472امیدوار میدان میں اُتارے تھے اور ان میں سے صرف 7مسلمان تھے۔ یوپی میں کوئی مسلمان امیدوار نہیں جیت سکا، جب کہ پارٹی نے 80میں سے 71نشستیں حاصل کیں۔ یعنی بی جے پی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مسلمان امیدواروں کے بغیر بھی انتخابات میں کام یابی حاصل کر سکتی ہے اور یہ اس کے تعصّب کی واضح نشانی ہے۔ دوسری جانب یہ مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اس طرح وہ مُلکی سیاست سے بہ تدریج باہر نکلتے جا رہے ہیں اور معاشرے میں ان کا اثرورسوخ گھٹتا جا رہا ہے۔ اس وقت بھارتی مسلمانوں کو مناسب نمایندگی مل رہی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ان کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود گزشتہ دنوں بھارتی وزیرِ خارجہ، سُشما سوراج کو اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم، او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کی دعوت دی گئی، جہاں انہوں نے اپنے مُلک کی سب سے بڑی اقلیت کی ترجمانی کی۔ حیرت کی بات ہے کہ او آئی سی میں بھیجنے کے لیے بھارت جیسے سیکیولر اور جمہوری مُلک کو کوئی مسلمان نمایندہ نہیں مل سکا اور نہ ہی کسی اسلامی مُلک نے اس کی پروا کی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کا کوئی مسلمان رہنما لوک سبھا میں موجود نہیں۔

2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی نے لوک سبھا کی 282نشستیں حاصل کی تھیں، جو گزشتہ 30برس میں سب سے زیادہ ہیں، جب کہ اس کے اتحاد نے 336نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی کو اپنے خوش حالی کے وعدوں اور ہندو توا کے نظریے کی وجہ سے کام یابی ملی تھی اور یہ انتخابات مودی حکومت کی 5سالہ حکومت کا ٹیسٹ ہوں گے۔ تاہم، مودی کے انتخابی نعروں نے بھارت کے سیکیولر امیج کو گہنا دیا، لیکن وہ اپنی انتہا پسندانہ سوچ پر شرمندہ نہیں۔ مودی کے دَور میں بھارتی مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی۔ تاہم، عالمی اداروں کے مطابق، مُلک میں پھیلی غُربت کے باوجود اقتصادی شرحِ نمو تیز ترین یعنی 7.5فی صد رہی۔ یاد رہے کہ آج دُنیا بَھر میں انسانی اقدار پر اقتصادی فواید ترجیح حاصل کر چُکے ہیں اور چُوں کہ مودی اس بات کو بہ خوبی سمجھتے تھے، لہٰذا انہوں نے بھارت کی اقتصادی کام یابیوں کو بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ وہ نہ صرف رُوس جیسے بھارت کے پُرانے حلیف سے تعلقات کو بروئے کار لائے، بلکہ امریکا، عرب دُنیا، اسلامی ممالک اور یورپی یونین سے بھی اپنے روابط مضبوط بنائے، جب کہ چین کے صدر، شی جِن پِنگ سے ان کی ذاتی دوستی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ تعلقات کسی تیسرے مُلک کو نقصان پہنچانے کے لیے قائم کیے گئے، بلکہ چین اس وقت بھی پاکستان کا سب سے قریبی دوست ہے اور سی پیک اس کی بہترین مثال ہے۔

بھارتی انتخابات: سیکیولرازم بمقابلہ ہندوتوا
راہول گاندھی

حالیہ بھارتی انتخابات میں پاک، بھارت تنائو اہمیت کا حامل ہے۔اپنی انتخابی مُہم کے دوران تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی پر بیان بازی کی اور اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پاک، بھارت تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین اس اَمر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، کانگریس اور بی جے پی مسئلہ کشمیر اور پاکستان سے متعلق تقریباً یکساں مؤقف رکھتی ہیں اور کانگریس کے برسرِ اقتدار آنے کی صُورت میں بھی مسئلہ کشمیر اور دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بڑی پیش رفت ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہو گی۔ گزشتہ دَورِ حکومت میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم، نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان مفاہمت پیدا ہو گئی تھی، جسے عمران خان اور اُن کی جماعت، پی ٹی آئی نے حُکم راں جماعت کے خلاف استعمال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اسی طرح وزیرِ اعظم، عمران خان اپنی وکٹری اسپیچ سے لےکر اب تک کئی بار اپنے بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کی پیش کش کر چُکے ہیں اور جذبۂ خیر سگالی کے تحت بھارتی طیّارے کے پائلٹ، ابھے نندن کو بھی غیر مشروط طور پر بھارت کے حوالے کیا گیا، لیکن اس پر بھی مودی اور بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ تاہم، عمران خان آج بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ انتخابات میں کام یابی کے بعد مودی نے اُس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کر کے خیر اندیشی کا اشارہ دیا تھا، لیکن کیا اب دوبارہ ایسا ممکن ہے۔ بہر کیف، بھارتی انتخابات کے رُجحانات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ حالیہ چُنائو میں بھی بنیادی اہمیت معاشی ترقّی کے ایجنڈے کی ہو گی اور یہی فیصلہ کُن ثابت ہوگا۔

تازہ ترین