• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری موجودہ قومی حالت سخت باعثِ تشویش ہے۔ محبِ وطن سمجھ دار لوگ حاضر و موجود اور آنے والے خطرات سے بے حد خائف ہیں۔ ستر برس سے ہم نے اپنے اصل مسائل سے چشم پوشی کی ہے۔ اب تک ہر سطح پر ہم صرف بنٹوں سے کھیلتے رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بارے میں وہی زبان جائز ہے جو مہذب محفلوں میں استعمال نہیں کی جا سکتی۔

ایسی صورت میں ایک عام آدمی اور کیا کر سکتا ہے کہ وہ کچھ سنگین مسئلوں کی نشان دہی کرے۔ ’’اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد‘‘۔ تو ہم اپنی فریاد آپ کے گوش گزار کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

1: ہمارے بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور مزید بڑھتے جائیں گے۔ سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے قطعاً کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی جس سے یہ قرضے اتر جائیں یا اس حد تک کم ہو جائیں کہ ہم دیوالیہ نہ ہوں۔

2: قرضوں کو خاطرخواہ حد تک کم کرنے کیلئے برآمدات کو بڑھانا تاکہ وہ درآمدات سے بڑھ جائیں ناگزیر ہے۔ ایسی کوئی تدبیر نہ پہلے تھی، نہ اب نظر آ رہی ہے۔

3: سب باشعور لوگ خوف زدہ ہیں کہ ہم تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔ کچھ ملک ہمارے سامنے دیوالیہ ہوئے ہیں، جن کو ان کے امیر دوستوں نے اپنا ’خون‘ دے کر بچایا۔ بُرے وقت میں خون تو کیا ہمیں تو کوئی پانی دینے کے لیے بھی تیار نہ ہو گا۔ اگرچہ ہم بے وقوفوں کی طرح امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ہمیں بچا لیا جائے گا۔

4: ہماری برآمدات تو نہیں بڑھیں گی البتہ ہماری درآمدات بڑھتی رہیں گی۔ اُن کے لئے ہمیں مزید زرِمبادلہ کہاں سے ملے گا؟ بالآخر ساہوکار مقروض سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔

5: ہمارے قرض خواہ صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور کریں گے۔ ہمارے اہم قرض خواہوں کے عزائم ہمارے بارے میں اچھے نہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ہمارے لئے خطرناک ہیں تو یہ زیادہ صحیح ہو گا۔

6: ہمارے اندرونی قرضے بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اُن کو کم کرنے کی کوئی پالیسی نظر نہیں آتی۔ ہماری آمدن اتنی کم ہے کہ ہم مزید اندرونی قرضے لئے بغیر اپنے کام نہیں چلا سکتے۔

7: دراصل ہم اپنا بوجھ اپنے گلے سے اتار کر اپنی آئندہ نسلوں کے گلے میں ڈال رہے ہیں۔

8: اب تک ہماری کوئی پالیسی ایسی نہیں بنی جس سے ہماری صنعت اور زراعت خاطر خواہ ترقی کرے۔ ہم سمجھتے رہے ہیں کہ محض سبسڈی اور ٹیکسوں کی چھوٹ اور اسی قسم کی کچھ دوسری رعایتوں سے ہماری صنعتی اور زرعی ترقی ہو جائے گی۔ اب جب کہ دنیا میں مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے تو ہماری چھوٹی بڑی صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئی ہیں اور یہ حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔

9: اب دنیا ایک گاؤں کی طرح ہے، جس میں کوئی بات ایک دوسرے سے چھپ نہیں سکتی۔ عقل مند ممالک وہ ہیں، جنھوں نے ترقی یافتہ ممالک کا غور سے مطالعہ کیا اور ان سے سیکھا۔ جب کہ ہم نے ایسا بالکل نہیں کیا۔ کہتے ہیں پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

10: جی ہاں موجودہ دور میں ترقی کا راز صرف اور صرف علم کی ترقی میں ہے۔ علم کی تعریف ہر عہد میں بدلتی رہی ہے۔ اس عہد میں علم سے مراد سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم ہے، جس سے انسانی ضروریات کی اشیاء، بالخصوص قیمتی اشیاء بنتی ہیں۔

11: ترقی یافتہ ملکوں میں مقابلہ اس بات میں ہے کہ کس ملک کی قیمتی اشیاء زیادہ سے زیادہ تعداد میں باہر کی منڈیوں میں بکتی ہیں۔ ہم اس مقابلے میں ابھی تک شامل ہی نہیں ہوئے، اس لئے کہ ہم کوئی بھی قیمتی چیز نہیں بنا سکے۔

12: یہ سب اس لئے ہے کہ وطن عزیز میں اس عہد کے تقاضوں کے مطابق نہ سائنس ہے اور نہ ٹیکنالوجی اور نہ ہم نے اب تک اس طرف کوئی توجہ کی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ 1947کی نسبت اب ہم ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جن ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرف توجہ کی اور سخت محنت کی وہ اب غربت سے نکل کر ترقی یافتہ ہو گئے ہیں اور پرانے ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

13: اس صورتحال کے پیش نظر ہمیں تمام قیمتی چیزیں جن کو موجودہ دور کی ٹیکنالوجی بناتی ہے اور جس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں بہ شمول ہماری ملٹری ضروریات، بیرونی قرضے لے کر خریدنا پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہیں اور ہم بہت سی اشیاء باہر سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ ’’کہہ دیجیے کہ کیا وہ قومیں اور افراد جن کو علم ہے اور وہ جن کو علم نہیں ہے کبھی برابر ہو سکتے ہیں‘‘۔

14: ہمارے تمام قومی ادارے وہی ہیں جو ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ یہ اس عہد کے تقاضوں سے ہرگز ہم آہنگ نہیں۔ یہ ترقی کی راہ میں ممد ہونے کے برعکس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہم نے ان کو ذرہ برابر تبدیل نہیں کیا۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے ادارے کس طرح کے ہیں۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم ان دقیانوسی اداروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے اور ترقی یافتہ دنیا کے اداروں کا مطالعہ کر کے پھر سے نئے ادارے بناتے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ۔ کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہ کی۔

آخر میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اب ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ بہت سرعت سے تمام بنیادی پالیسیوں کو بدلنا ہو گا۔ ورنہ ہمارا انجام وہی ہو گا جو اُن بستیوں کا ہوا جن کی تباہی کی داستانیں تاریخ عالم میں رقم ہیں۔ بقول اقبال:

حادثہ جو کہ ابھی پردہ افلاک میں ہے

عکس اس کا مرے آئینہ ادراک میں ہے

(صاحب ِ تحریر سابق سیکرٹری ایجوکیشن پنجاب ہیں) 

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین