• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدیوں سے بادشاہ انسانی خون کی قیمت پراپنے خزانے بھرتے چلے آرہے ہیں ۔بس خزانوں کی زمینیں اور شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ہوسِ ملک گیری کے طریقے بدل گئے ہیں ۔ انسان کا ماضی ٹھوس شکل میں سفید اور زرد سونے کی ایک بڑی ”لوٹ “کی داستان ہے ۔ اور انسان کا حال بہتے ہوئے کالے سونے کے خزانوں اور دوسری قیمتی معدنیات پر قبضے کا قصہ ہے۔بلوچستان کوبھی کئی برسوں سے اسی قصے کا حصہ بنایا جارہا ہے۔تیل اور گیس کے خزانوں پر تو پہلے سے عالمی لٹیروں کی چشم ِ ہوس گیر لگی ہوئی تھی۔اب گوادر کی بندرگاہ کو بھی سونے کی کان کہا جا رہا ہے اور مجھے اس دروازے پر امریکہ۔ بھارت۔اسرائیل اور کئی دوسرے ممالک کی دستک صاف سنائی دے رہی ہے۔یہ اسی دستک کا کمال ہے کہ قومیت کی قربان گاہ پر نثار ہونے کیلئے بلوچ ہتھیلیوں پر سروں کو سجا کرگھروں سے نکل آئے ہیں۔اورمجھے اپنے صاحبانِ اقتدار پر بھی حیرت ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر معافی تو کجا ہم انہیں بارود بھری آواز سے لوٹ جانے کا مشورہ دے رہے۔ بلوچستان کی زندگی جو محبت اور اخوت سے عبارت تھی جو زندگی میرے اردگرد ہے وہ ظلم و بربریت کی داستان بن گئی ہے ۔ اب وہاں زندگی ایک زخم ہے۔ گلتا ہوا زخم ۔بہتا ہوا زخم۔
یہ بہتا ہوا ، گلتا ہوا زخم اس زندگی کی عطا ہے جو چم چم کرتی کاروں اور لش لش کرتے بنگلوں میں رہتی ہے۔جو سربلند پہاڑوں کی مشکل مشکل پگڈنڈیوں کو نہیں جانتی جس نے غیرت مندوں کے ٹوٹے پھوٹے گھروندوں میں بھول کر بلکہ کبھی بھٹک کر بھی قدم نہیں رکھا۔علم و قلم سے دور آگ جھلساتی دوپہروں جیسی اس زندگی پردکھ کے سائے ہر وقت تھرتھراتے رہتے ہیں۔۔کہیں کسی کے معصوم سے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔کہیں کسی کی بیوی بیمار ہے تڑپ رہی ہے۔یہ زندگیاں بڑی اذیت ناک ہیں۔بڑی بے رحم اور ظالم ہیں۔زندگیاں نہیں ۔حالات کے شکنجے میں جکڑی ہوئی عمریں ہیں ۔یہ لمحوں کا بہتا ہوا دریا ہے۔لوگ جس کے دھارے پربے بس تنکوں کی طرح بہے جارہے ہیں۔
مجھے اسلام آباد کے ای سیون کی کوٹھیوں سے بلوچستان میں مرنے والوں کے لہو کی بو آتی ہے۔مجھے پھر مشرقی پاکستان یاد آنے لگا ہے جسے صرف اور صرف ہماری ہوسِ اقتدار نے ہم سے جدا کیا ہے۔کبھی سوچا ہے ہم نے کہ کیوں مشرقی پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں نے پاکستانی ہونے سے بھی انکار کردیا ۔قصہ صرف اتنا ہے کہ پاکستان کے جسم کا وہ حصہ جس میں ستاون فیصد آبادی تھی۔جسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے ان کی عددی اکثریت سے ہم نے روزِ اول سے خوف کھانا شروع کر دیا تھا۔پہلے ہم نے اپنے چاروں صوبوں کوتوڑ کر ون یونٹ اس لئے بنایاکہ صوبہ مغربی پاکستان بمقابلہ مشرقی پاکستان کھڑا کردیں۔مگر جب ہم نے دیکھا کہ اب بھی جمہوریت کے مسلمہ اصول کے مطابق بالغ رائے دہی پر الیکشن ہوتے ہیں تو مشرقی پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے توہم نے جمہوریت کا منہ چڑانے کیلئے یہ فارمولا ایجاد کیا کہ دونوں صوبوں سے برابر کی تعداد میں نمائندے منتخب ہوں گے۔یوں 57 فیصد اور43 فیصد کا حیرت انگیز اصول نکالا گیا۔ مغربی پاکستان کا ایک ووٹ مشرقی پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ ووٹ کے برابر شمار کیا جانے لگا ان غربیوں نے یہ بات بھی قبول کرلی۔پھر ہم نے مارشل لا لگادیا۔ اور جب مارشل لا کے بعد ملک کے پہلے جنرل انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان کو واضح کثریت حاصل ہوگئی تو ہم نے وہاں فوج بھیج دی۔بے انتہا قتل و غارت کے بعد بالآخر وہ حصہ ہم سے علیٰحد ہ ہوگیا۔ سچ یہی ہے کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار کی ہوسِ اقتدارنے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر محبور کر دیا تھااور اب کچھ ایسا ہی بلوچستان میں ہو رہا ہے وہاں بھی انڈیا کاہی فائدہ تھا اور یہاں بھی اس کی کارستانیاں واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔بے شک میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں مگردوستی دونوں طرف سے ہوا کرتی ہے، دوستی کیلئے بھارت کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا سو مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا۔اسی میں دونوں ممالک کی بقا ہے۔کیونکہ یہ دشمنی دونوں ملکوں کے عوام کیلئے بہت خوفناک ہے ۔دونوں طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔دونوں اپنے وسائل ہولناک سے ہولناک تر اسلحہ تیار کرنے پر پھونک رہے ہیں۔ہم عجیب پڑوسی ہیں۔ دونوں کی انگلیاں ٹریگر پر ہیں۔بے خوابی نے ہمارے اعصاب توڑ دئیے ہیں۔کسی کو ممکن ہے اونگھ آجائے اور انگلی ٹریگر دبا بیٹھے۔ تو پھر کیا ہو گا۔کچھ بھی نہیں بچے گا کیونکہ دونوں ممالک عوام کے منہ سے نوالے چھین چھین کر ایٹمی قوت بن چکے ہیں یہ بات بھارت کو بھی سمجھنی چاہئے مگر دونوں کے ارباب ِاقتدار ایک جیسے ہی ہیں۔ ان کے کانوں میل جم چکی ہے انہیں کچھ سنائی ہی نہیں دیتا ، کانوں کی میل سے ایک واقعہ یاد آرہاہے۔
لوہاری گیٹ کے باہر مجھے ایک شخص ملا۔کہنے لگا “مجھ سے کان صاف کرا لیجئے ۔میں بڑے اچھے طریقے سے کان صاف کرتا ہوں “۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا۔مجھے اگلے ہی لمحے یاد آگیا کہ اس شخص کے ساتھ تو برسوں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھتا رہا ہوں۔یہ پاکستان کا اچھا بھلا مشہور ادیب ہے۔اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ تم یہ لوگ کان کیوں صاف کرتے پھر رہے ہو۔اچھے بھلے لکھنے والے آدمی ہو۔ تمہیں کہیں بھی نوکری مل سکتی تھی۔ کہنے لگا میں پیسوں کے لئے تو لوگوں کے صاف نہیں کرتا۔ دراصل اس قوم کے کانوں میں بڑی میل جم گئی ہے۔لوگوں کو کوئی بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ اب دیکھو انیس سو اڑتالیس میں جو مکان مجھے الاٹ ہوا تھااس کا قبضہ ابھی تک مجھے نہیں ملا۔میں کونسی کورٹ میں نہیں گیا ۔کس عدالت کا دروازہ میں نے نہیں کھٹکھٹا یا مگر کوئی سنتا ہی ہیں۔بس بات میری سمجھ میں آگئی کہ اس قوم کے کانوں سے میل نکالنی بڑی ضروری ہے اوربات میری سمجھ میں بھی آگئی تھی کہ انصاف کی تلاش میں بیچارہ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
تازہ ترین