• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 اِن دِنوں ایک بار پھر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا غلغلہ ہے ۔ ایک جانب ملکی معیشت کےلیے اس کے فوایدگنوانے والے ہیں اور دوسری جانب وہ طبقہ ہےجو دیانت داری سے زندگی بھرتمام ٹیکس ادا کرتا رہتا ہے لیکن سرکار سے کبھی کوئی رعایت نہیں پاتا۔چناں چہ اس کا غصّہ فطری ہے۔دل چسپ امر یہ ہے کہ آج کے وزیرِ خزانہ،جو پچھلی حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے پر سخت تنقید کرتے نظر آتے تھے، وہ ہی اب یہ ’’بُرا کام‘‘کرنے کو تیار ہوگئے ہیں۔چناں چہ تقریبا تمام نجی ٹی وی چینلز پر ان کے اور عمران خان کے وہ پرانے کلپ چلائے جارہے ہیں جن میں وہ اس وقت کی حکومت کو اس معاملے پر آڑے ہاتھوں لیتے نظر آتے ہیں۔دوسری جانب سابق حکومت کے وہ عہدے دار اور راہ نماجو اپنی حکومت کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم دینے کی اس وقت حمایت میں پیش پیش تھے موجودہ حکومت کی ایسی ہی اسکیم کی مخالفت کررہے ہیں ۔ایسے میں عوام کے یہ سوالات بے جا نہیں ہیں کہ یہ کیسی گھناونی سیاست ہے اور یہ کیسا گورکھ دھندا ہےجس کے کھلاڑ یو ں کو کوئی شرم ہے اور نہ حیا۔ایک جانب ایک اسپیکر اسمبلی ملک کے خراب اقتصادی حالات کا رونا روکر قوم سے ایک روٹی کم کھانے کا کہہ رہا ہے اور وزیر خزانہ اقتصادی حالات بہتر بنانے کے لیے منہگائی برداشت کرنے کا مطالبہ کررہا ہےاور دوسری جانب ایک صوبے کی اسمبلی کے اراکین منہگائی کا رونا رو کر اپنی تن خواہوں اور مراعات میں ہوش ربا اضافے کابل بغیر کسی مزاحمت کے منظور کرلیتے ہیں۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کا اعلان دراصل ان الفاظ کے ذریعے کیا جانا چاہیے:’’اگر آپ ٹیکس چور ہیں اور چوری کے پیسے سے آپ نے ملک میں جائیداد خریدی ہے یا پھر بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں تو پھر آپ کو حکومت کی جانب سے ماضی کے متعدد مواقعے کی طرح ایک مرتبہ پھر کالا دھن سفید بنانے کاموقع دیا جارہا ہے۔اگر آپ اس موقعے سے بھی فایدہ نہیں اٹھا پائے تو دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ایسی اسکیمز آئندہ بھی آتی رہیں گی اور ممکن ہے کہ سال چھ ماہ بعد آپ پھر ایسی ہی کسی اسکیم کی خوش خبری سنیں‘‘۔

اطلاعات کے مطابق نئی 'ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ٹیکس چور ، معمولی ٹیکس اداکرکے اپنے ملکی اور غیر ملکی اثاثے ظاہر کر سکیں گے۔یہ اسکیم چند دنوں میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسد عمرکے بہ قول یہ اسکیم کاروباری افراد کی خواہش پر لائی جا رہی ہے ۔ وزیر خزانہ کے بہ قول اس اسکیم سے صرف کاروباری افراد فائدہ اٹھا سکیں گے۔کاش کہ غریبوں کی خواہش پر بھی کوئی منصوبہ بنایا جاتا۔

ایک کے بعد دوسری اسکیم

پاکستان میں حکومتیں ماضی میں بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کرتی رہی ہیں اور پچھلی حکومت کے دور میں ایسی تین اسکیمزجاری کی گئی تھیں۔یاد رہے کہ بے نامی جائیدادوں کو قانونی قرار دینے کی (جون 2018 کو ختم ہونے والی) ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو 120 ارب روپے کی آمدن ہوئی تھی۔1958سے اب تک ایک درجن سے زائد ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز جاری کی جا چکی ہیں۔2000تک ہر دس سال بعد ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کی جارہی تھی۔1999میں سابق صدرپرویز مشرف نے غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کی تھی۔ اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں ٹیکس سروے کیا گیا۔ ایف بی آرکے افسروں کے ساتھ فوجی افسر بھی سروے میں شریک تھےجس پر تاجر برادری نے بہت واویلا کیا تھا۔ چناں چہ ہر سطح کے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی یہ اسکیم بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔2010 میں کالے دھن کو دو فی صد ٹیکس ادا کرکے سفید کرنے کی اجازت دی گئی تو صرف ڈھائی ارب روپے کا کالادھن سفید ہوسکا اور وہ اسکیم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کےپچھلے دور میں پچاس ہزار نان کسٹم پیڈگاڑیوں کو قانونی قرار دینے کی اسکیم جاری کی گئی تھی ۔مسلم لیگ نواز کےپچھلے دور حکومت میں تین ٹیکس ایمنسٹی اسکیمزجاری کی گئیں۔2013میں مخصوص سیکٹر میں سرما یہ کاری کرنے والے افراد کو ذرایع آمدن بتانے کی چھوٹ فراہم کی گئی۔2015میں تاجروں اور دکان داروں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کی گئی اور ایف بی آر نے تاجروں کو ذرایع آمدن بتانے کی چھوٹ فراہم کی ۔ تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بے نامی جائیدادوں کو قانونی قرار دینے کی اجازت دی گئی۔ اس اسکیم کے تحت ٹیکس کی شرح پانچ تا دس فی صد مقرر کی گئی تھی۔

فرمائشیں اور مطالبات

اطلاعات کے مطابق بعض با اثر کاروباری حضرات اور تاجر برادری کے اہم راہ نماوںنے وزیرِ اعظم سے کچھ دنوں پہلے ملاقات کرکے شکوہ کیا تھاکہ اس وقت کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے ۔بہت سے شعبوں، بالخصوص ، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹرانزیکشنز نہیں ہو رہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا تعلق چالیس دیگر شعبوںسے ہے، لہذا وہ بھی اس صورت حال سے متاثر ہو رہے ہیں، جس کا منفی اثر ملکی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ تاجر برادری کے راہ نماوں نے وزیراعظم کواس کا حل ایک نئی ایمنسٹی اسکیم لانے کی تجویز کی صورت میں پیش کیا تھا۔واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اس ملاقات میں مذکورہ افراد نے پچھلی ایمنسٹی اسکیم کی 2، 3اور 5فی صدجرمانے اور ٹیکسز کی شرح پر نئی ایمنسٹی اسکیم کے لیے اتفاق کیاتھااور ان کا مطالبہ تھاکہ ایف اے ٹی ایف کے سخت قوانین نافذ ہونےکے پیش نظر اور آئی ایم ایف سے معاہدے سے پہلے حکومت ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرے ۔اس صورت حال میں وزیر خزانہ، اسد عمر نے بجٹ سے پہلے نئی ایمنسٹی اسکیم لانے کااشارہ دیا ۔

ہمیں کچھ نہ کہو

ملکی اور غیر ملکی اثاثے اور رقوم ظاہر کرنے کی پچھلی ایمنسٹی اسکیم کی آخری تاریخ 31دسمبر 2018تھی، جس کو بڑھاکر 28 فروری 2019ءکردیا گیا تھا۔اس اسکیم سے 81ہزار افراد نے فایدہ اٹھایا اور قومی خزانے میں 1.67ارب روپے جمع کرائےتھے۔پارلیمان سے منظور شدہ ایمنسٹی قانون کے تحت ایف بی آرایمنسٹی حاصل کرنے والوں کی معلومات کسی ادارے یا شخص سے شیئر کرنے کا مجاز نہیں۔بعض باخبر حلقوں کے مطابق ایف بی آرنےکافی دبائوکے باوجودپچھلی ایمنسٹی اسکیم سے فایدہ اٹھانے والوں کی کسی قسم کی معلومات بعض سرکاری اداروں تک سے شیئر کرنےسے انکارکردیا ہے،حتی کہ عدالت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہاگیا کہ ایمنسٹی کےقانون کے تحت ایف بی آر ان معلومات کا امین ہے،لہٰذا یہ معلومات شیئر نہیںکی جاسکتیں۔ دوسری جانب یہ خبر ہے کہ دبئی میں غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی کےضمن میں ایف آئی اے سے کہا گیاتھا، جس پر ایف آئی اے نے دبئی میں جائیداد رکھنے والوں کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔اس کارروائی پر تاجر برادری کاشدید ردعمل سامنے آیااور اس کے بعض راہ نماوں نے اس مسئلے پر بہ راہ راست وزیراعظم ،عمران خان سے بات کی تھی جس پر وزیراعظم نے فوری طور پر متعلقہ ادارے کو ہدایت کی تھی کہ ایمنسٹی اسکیم سے فایدہ اٹھانے والے افراد کو ہراساں نہ کیا جائے۔اس کے بعد تمام نوٹسز واپس لے لیے گئے تھے،مگر غریبوں کے لیے جاری کیے گئے نوٹسز واپس نہیں لیے گئے اور ان کے گھر اور دکانیں غیر قانونی قرار دے کر گرادی گئیں۔

ایک اطلاع کے مطابق تاجر برادری نے موجودہ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ کاروباری شخصیات اور ان کے اداروں پر چھاپے مارے جائیں اورنہ ان کے کمپیوٹرز اور ریکارڈ ضبط کیے جائیں۔واہ کیاخوب حل ہے۔پہلے ٹیکس چوری کرکے اور دیگر غیر قانی طریقوں سےمال بنایا اور پھر اسے معمولی رقم ادا کرکے بچایا اور چھپایا جائے، لیکن غریب کےلیے سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ چھوڑی جائے۔

چوروں کے خلاف تنگ ہوتا عالمی گھیرا

واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ دنیابھر میں بینکنگ کے سخت سے سخت تر ہوتے ہوئے قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلےکے معاہدوں کےبعد پاکستان کے ٹیکس چوروں اور غیر قانونی طریقوں سے دولت کمانے والوں کے لیے بیرونِ ملک دولت کو چھپا کر رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب ہماری غیر دستاویزی معیشت کا حجم دستاویزی معیشت سے بڑھ چکا ہے۔اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ایسی صورت حال میں بیرون ملک سے آنے والی رقوم میں فرق کرنا بہت مشکل ہوگا۔چناں چہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت کس طرح یہ فرق کرے گی کہ یہ پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے مالی وسائل کا نہیں ہے،یایہ منشیات سے حاصل ہونے والا پیسہ نہیں ہے۔ ہمارا قانونی نظام بھی زیادہ موثر نہیں ہے۔ اسی لیے ایف اے ٹی ایف نے پچھلی ایمنسٹی اسکیم پر باقاعدہ طورپر اپنے تحفظات کا اظہار کیاتھا۔

مفتاح اسماعیل جب پچھلی حکومت میں مشیر خزانہ تھے تو ایک محفل میں ان سے سوال کیاگیا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس چوری، سرمائے کی غیر قانونی طورپر بیرون ملک منتقلی اور دیگر معاملات سے متعلق قوانین موجود ہیں۔ حکومتی پالیسی درست نہ تھی یا ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب تھی، مگر ان سب نے ٹیکس چوری کر کےاوراثاثے چھپا کر جرم کیا ہے اورجب تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (OECD) کا رکن بننے کے بعد خود بہ خود ٹیکس چوروں کی معلومات آپ کو مل جائیں گی تو حکومت کیوں انہیں معافی دے رہی ہے؟اس پر مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہمیں جیل بھرنے کا شوق نہیں ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دنوں امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے اور ماضی میں حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ بیرون ملک منتقل کیا۔ بیرون ملک اثاثے رکھنے والے بھی پاکستانی ہیں اورہمیں اپنے بھائیوں کو ایک موقع دینا چاہیے۔حالاں کہ اسی محفل میں انہوں نےیہ تسلیم کیا تھا کہ ماضی کی تمام ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز بری طرح ناکام ہوتی رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے پہلے کسی بھی پاکستانی کی معلومات حاصل کرنے کے لیے خط نہیں لکھوں گا۔دیکھیے ،امیروں کو بچانے کے لیے کس کس سطح پر کام ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ مفتاح اسماعیل کے برعکس قبل ازیں ایف پی سی سی آئی میں سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک، طارق باوجوہ ایمنسٹی اسکیم لانے کےمطالبے کی نفی کرچکے تھے۔لیکن پھر خفیہ ہاتھ کام دکھا گیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بزنس کمیونٹی کیوں اتنی شدت سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جلد از جلد لانے کا مطالبہ کررہی ہے؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے خلاف دنیا بھر میں اتحاد بن رہے ہیں اور ان اتحادوں میں پاکستان چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے شامل ہوچکا ہے۔ پاکستان نے 2016 میں او ای ڈی سی کے ٹیکس کے معاملات میں باہمی انتظامی معاونت کے معا ہدے پردست خط کردیےتھے۔پاکستان اس معاہدے پر دست خط کرنے والا 104 واں ملک تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں اس معاہدے میں شامل ہونے کے ضمن میں بہت زیادہ مزاحمت موجود تھی۔اس کنونشن کے تحت پاکستان کو معلوما ت تک رسا ئی 2018کے آخر اور2019کے اوائل سے ملناشروع ہو چکی ہے۔ ٹیکس چوروں کی جنت تصور کیے جانے والے برٹش ورجن آئی لینڈ،آئل آف مین، جرسی لیوتھوینیا اور برطانیہ نے معلومات کی فراہمی ستمبر2017سے شروع کردی ہے۔ ستمبر2018سے سوئٹزرلینڈ اور ملائیشیا بھی معلومات کی فراہمی شروع کرچکے ہیں۔ چناں چہ اب گھیرا تنگ ہورہا ہے۔

غریب ٹیکس دے ،امیر عیش کرے

گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم ،شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کے بعد پاکستان میں تین کروڑ افراد ٹیکس دہندہ ہونے چاہییں، ملک میں اس وقت صرف سات لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ٹیکس کے نظام پر کاروباری برادری کو بھروسہ نہیں ہے اور صرف سو کمپنیز مجموعی طور پر431ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہیں جو بہت کم ہے ۔ 61ہزار کمپنیز میں سے صرف 10ہزار ٹیکس ادا کرتی ہیں ۔ملک میں جو سات لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں ان میں سے 90فی صدکا تعلق تن خواہ دار طبقے سے ہے جن کا ٹیکس تن خواہ ہی سے کاٹ لیا جاتا ہے ۔واضح رہے کہ پاکستان میں 0.4فی صد،بھارت میں 4.7فی صد، فرانس میں58فی صد اور کینیڈا میں 80فی صد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

زندگی شاہانہ،ٹیکس کی ادائیگی صفر

یہ اکتوبر 2014کی بات ہے۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک میںتیئس لاکھ اسّی ہزارافراد محل نما گھروں میں رہتے ہیں، قیمتی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ،وقتاً فوقتاً غیر ملکی دورے کرتے ہیں، مختلف بینکس میں اکاؤنٹ رکھنے کے ساتھ بھاری یوٹیلٹی بلزبھرتے ہیں، لیکن انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔اس رپورٹ کے مطابق ٹیکس وصول کرنے والے حکام ان امیر لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ 5٫84٫730پاکستانیوںکے مقامی اور غیر ملکی بینکس میں ایک سے زاید اکاؤنٹس ہونے کے باوجود، ان کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں ہے۔ملک میں تقریباًچھپن ہزار افراد پوش علاقوں میں رہتے ہیں اور بیس ہزار افرادکے پاس بیش قیمت گاڑیاں ہیں، تاہم یہ لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ٹیکس وصول کرنے والے اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی اور دیگر بڑے شہروںکے پوش علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کی زمین خریدنے والوں کو تلاش کرنے اور ان سے انکم ٹیکس لینے میں بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھاتے۔ملک میں 66٫736انفرادی صارفین بھاری بھرکم یوٹیلٹی بلز تو ادا کرتے ہیں لیکن انکم ٹیکس نہیں دیتے ۔ ممنوعہ اور غیر ممنوعہ بور کےہتھیاروں کے لائسنس رکھنے والے تیرہ ہزار سے زاید افراد کے پاس این ٹی این نہیں ہے۔ طب، انجینئرنگ، قانون اور چارٹرڈ اکاؤنٹینسی جیسے خاصی کمائی والے شعبوں میں خدمات انجام دینے والے 25٫130افراد بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

ان حالات میں حکومتیں خواہ کچھ بھی کرلیں،حقیقت یہ ہے کہ جب تک چور دروازے بند نہیں ہوں گے ایمنسٹی اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

تازہ ترین