• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھیو، بہنو تے بالو کڑیو! پھٹے پُرانے کپڑے، ٹٹیاں بھجیاں جُتیاں، پانڈے وٹالو تے کھیلاں پتاشے کھا لو، نویں پرانے پانڈے کلّی کرالو۔ نواں پاکستان بن گیا جے تے پُرانے نوں بُھل جاوو۔ (بیٹیو، بہنو، نوجوان لڑکیو، پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹی جوتیاں تبدیل کراکے نئے پرانے برتن قلعی کروا لو اور کھیلاں بتاشے کھا لو۔ نیا پاکستان بن چکا ہے اور پُرانے کو بھول جائو)۔ آج پُرانے پاکستان میں غریبوں کی بستیوں میں لگنے والی یہ صدا، دل سے اک آہ بن کر نکلتی ہے کہ جب عمرانی سرکار کی حرکتیں دیکھتے ہیں تو خیال یہی آتا ہے کہ یہ حکمران پورے پاکستان کو غریبوں کی بستی بنانے کی خاطر گلی گلی یہی صدا لگا رہے ہیں اور غریبوں کے پُرانے کپڑے، جوتیاں، برتن تک بکوا کر ہی دم لیں گے اور صرف وقتی طور پر زبان کے چسکے کی خاطر ’’کھیلاں بتاشے‘‘ ہی دیں گے۔ پیٹ بھر کر کھانے کو روٹی نہیں ملے گی۔ یعنی عوام کو ٹھینگا، مشیر خزانہ اور وزیرِ خزانہ صاحب کو اس ملک کی بربادی کا ٹھیکہ ہی ملے گا۔ عمرانی سرکار کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ جو کہتی ہے کر کے دکھاتی ہے۔ دیکھیں نا عوام کی چیخیں نکلوانے کا جو وعدہ کیا تھا وزیرِ خزانہ صاحب نے پورا کر دکھایا۔ اب تو یوتھئے بھی عش عش کراٹھے ہیں، سیاسی وارداتئے بھی بڑے کمال کے لوگ ہوتے ہیں، خصوصاً جیب کترے، عوام کی ایسی جیب کاٹتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ متاثرہ شخص کو اسی وقت پتہ چلتا ہے جب وہ لٹ چکا ہوتا ہے لیکن یہ وارداتئے تو دن دیہاڑے ناکے لگا کر عوام کو جگہ جگہ لوٹ رہے ہیں اور ان کے خلاف کسی تھانے، کورٹ، کچہری میں فریاد بھی نہیں ہو سکتی۔ اتوار کی چھٹی کے دن جب سڑکیں ویران تھیں عوام محو خواب خرگوش تھے، وزیرِ خزانہ صاحب نے پٹرول بم چلا کر ہر طرف صف ماتم بچھا دی۔ غریب عوام کی چیخیں نکلوا دیں۔ تاریخ اس سانحے کو کبھی نہیں بھولے گی۔ اس کے کرداروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ جو گلی گلی غریب بین کرتے، دیواروں سے سر ٹکراتے بددعائیں دے رہے ہیں آپ دیکھیں گے بہت جلد یہ تمام قومی مجرم لائن بنائے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے مگر انصاف پھر بھی نہیں ملے گا، عوام کی چیخیں اسی طرح نکلتی رہیں گی۔ یہ سب وارداتئے پھر بھی کہتے ملیں گے کہ جو کچھ کیا اس ملک کے مفاد، خوش حالی و ترقی کے لئے کیا۔ یہ بڑی ہوشیاری سے نوسر بازی کر رہے ہیں، جس دن پٹرول بم چلایا گیا تو ریسکیو کی خاطر ادارہ شماریات میدان میں آیا کہ مرغی، انڈے، گوشت، سبزی کی قیمتوں کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح کم ہونے کے نام نہاد اعداد و شمار پیش کردیئے اور دوسرے ہی دن اسی ادارے نے پلٹا کھایا اور پانچ سال میں مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹنے کا اعتراف کر لیا۔ پٹرول نے مہنگائی کے فیتے کو ایسی آگ لگائی کہ ڈالر بھی قابو سے باہر ہو گیا۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ رہی سہی کسر عمرانی سرکار کے زیر انتظام یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ’’اسمارٹ بموں‘‘ نے آٹے، دال، چاول اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں گیارہ سے پچاس روپے فی کلو اضافہ کر کے رمضان سے قبل ہی غریبوں کو روزے رکھوا دیئے۔ کوئی خدا کا خوف نہیں، کیا کسی نے اپنے رب کو جان نہیں دینی؟ کیوں اقتدار کی خاطر اپنی آخرت خراب کرتے ہو؟ غریبوں کی بددعائوں سے ڈرو، مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی آہوں سے بچو، وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ شاہی گدائی میں بدل جائے گی۔ تم کہتے ہو غریب متاثر نہیں ہو گا، امیروں کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکلوا کر غریبوں کی جھولی میں ڈالیں گے۔ کیا تم بے حس لوگ یہ نہیں جانتے کہ اب توحالت یہ ہو گئی ہے کہ بڑے بڑے شاہ، خزانوں کے مالک کنگال ہو گئے ہیں اور صدائے گدا لگانے پر مجبور ہیں۔ جو سفید پوش تھے تم نے تو ان کے تن بدن سے بھی کپڑا چھین لیا، تم نے اس قوم کی تقدیر تو کیا بدلنا تھی سب کو بھکاری بنا دیا۔ اے بنی گالا کے شاہی مکین! تم وہ نہیں ہو جو ہم سمجھے تھے۔ تم نے ہم سے دھوکہ کیا، تمہیں کیا خبر کہ بنی گالا کے باہر گندی نالیوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تعفن زدہ گلی محلوں میں بھوک کس طرح عریاں ناچ رہی ہے اور اس رقص پر بھی تماش بین نوٹ نچھاور کرنے کو تیار نہیں۔ وزیر خزانہ عوام کی چیخیں سن سن کر عرب شیوخ کی طرح بچوں کی اونٹ ریس میں اس بات پر خوش ہو رہا ہے کہ جو کہا کر دکھایا۔ کچھ توخدا کا خوف کرو۔ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو۔ سیالکوٹ، فیصل آباد، کراچی، لاہور جیسے شہروں سے سرمایہ اُڑ کر باہر جا چکا۔ بینکوں سے روپیہ غائب، صنعتوں کا پہیہ جام ہو چکا اور تم پٹرول، ڈالر کی گیم میں چند لوگوں کی دیہاڑیاں لگوا کر اے ٹی ایم مشینوں کو فل کرنے پر تلے ہو اور انہیں اپنا سہارا سمجھتے ہو، یاد رکھو! انصاف اندھا ہوتا ہے یہ کسی کو بھی شکنجے میں لے سکتا ہے، جس دن انصاف ہوگا ڈالر پٹرول کے کھیل میں روپیہ پیسہ بنانے والوں کے گریبانوں تک آئے گا۔ سب کچھ نظر آرہا ہے بس کچھ اندھے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ آخر اس کھیل میں کچھ لوگ بڑی تیزی سے اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں ہیں۔ انہیں عمرانی سرکار کے مستقبل کا یقین نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اپنے ہیلی کاپٹروں، جہازوں، گاڑیوں کا کرایہ وصول کر کے پیچھے ہٹ جائیں۔ جناب خان صاحب! نیا پاکستان پرانے پاکستان سے زیادہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، پنجاب کے ہر محکمے میں آپ کے لوگ پرچی مافیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے جا رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ پہلے والے حکمران عقل مند وارداتئے تھے، انہیں لوٹ مار کا ہنر آتا تھا۔ آپ کے لوگ تو بڑے اناڑی نکلے اور کھلے عام جیبیں بھر رہے ہیں، یہ جو ملتان کے شاہ صاحب! نے تھا تھیا شروع کر دیا ہے کہیں مستقبل میں ٹھا ٹھیا نہ کر دے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ شاہ صاحب ’’موسیقار‘‘ کے بغیر نئی دھن تیار کر سکیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ شاہ صاحب کے ساتھ طبلہ نوازی کے فرائض جناب گورنر پنجاب چودھری محمد سرور انجام دے رہے ہیں۔ کئی سارنگیاں بھی بجیں گی۔ ذرا محتاط ہو جائیے، نئی فلم کے گانوں کی دھنیں تیار کی جارہی ہیں جلد طبلے کی تال پر دھمال پڑے گی۔

تازہ ترین