• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں بہت دردناک واقعات اور ان پر بہت موثر احتجاج دیکھے ہیں لیکن کوئٹہ میں ہونے والے بیسیوں بے گناہ افراد کی شہادت پر ان کے لواحقین اور دوسرے درد مند افراد کے احتجاج نے میرے دل میں غم کی آگ بھر دی ہے اور مجھے اپنے دل کے علاوہ اپنا قلم بھی پگھلتا محسوس ہو رہا ہے چنانچہ جو میں لکھنا چاہ رہا ہوں، وہ مجھ سے لکھا نہیں جا رہا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں سینکڑوں افراد نے 88 میتوں کے ساتھ مائنس ٹمپریچر میں 36 گھٹنے گزارے ہوں اور ایسے یخ بستہ موسم میں عورتیں، بوڑھے اور ننھے منے معصوم بچے بھی پوری استقامت اور صبر کے ساتھ ان کا ساتھ دے رہے ہوں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسے بے حس اور شمر صفت حکمران بھی نہیں دیکھے، جن کے سینوں میں دل کی بجائے پتھر نصب ہیں اور وہ اس انسانیت سوز ظلم اور اس پر دل پگھلا دینے والے احتجاج کے باوجود ٹس سے مس نہ ہو رہے ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ایسا سفاک وزیر اعلیٰ بھی نہیں دیکھا، جس کا دل خوف خدا کے علاوہ خوف خلق خدا سے بھی خالی ہو اور جو ان سارے دل ہلا دینے والے مناظر سے مکمل طور پر لاتعلقی کے ساتھ دوبئی میں پکنگ منا رہا ہو۔
مجھے دکھ صرف اس بات کا نہیں کہ بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور یہ سلسلہ کب سے جاری ہے بلکہ اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ احتجاجی دھرنا دینے والوں میں صرف اہل تشیع شامل ہیں جن کے پیاروں کو محض ان کے مسلک کی وجہ سے خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ اس دھرنے میں وہ دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء شامل کیوں نہیں ہیں جو قوم کو ہر وقت اتحاد بین المسلمین کا درس دیتے رہتے ہیں۔ چلیں دھرنے میں شمولیت پر اصرار نہیں کرتے لیکن کیا یہ علماء جو فحاشی کے خلاف ہزاروں کے مجمع کے ساتھ احتجاج میں دیر نہیں کرتے، اس فرقہ وارانہ فحاشی کے خلاف احتجاج کرتے کیوں نظر نہیں آ رہے؟ چلیں ان کو بھی چھوڑیں، جماعت اسلامی تو کسی ایک مسلک کے لوگوں پر مشتمل نہیں ہے، وہ تو ”نیل کے ساحل سے لے کر تابخا کِ کاشغر“ کے مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار ہے، کم از کم اسے تو اس احتجاج میں پہل کرنی چاہئے تھی۔ میری خواہش ہے کہ جماعت کے شعلہ بیان امیر سید منور حسن، تاخیر سے ہی سہی لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ سڑکوں پر آئیں اور مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلانے کی اس روش کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ کریں۔
کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دینے والوں کو میرا سلام، کہ ان کے پیاروں کی لاشیں ان کے سامنے دھری ہیں لیکن انہوں نے بے گناہوں کے قتل کا بدلہ دوسرے بے گناہوں کو قتل کر کے نہیں لیا۔ شہر میں کسی بس کو آگ نہیں لگائی، عمارتوں پر حملہ نہیں، بس پورے صبر کے ساتھ اپنے پیاروں کی میتوں پر بیٹھے ہیں، روتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں، میں نے اس سے زیادہ موثر احتجاج نہیں دیکھا۔ چنانچہ آج پاکستان کا ہر شہری ان کے غم میں شریک ہے۔ جن مظاہروں میں وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، میرا ذہن ہٹ جاتا ہے اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ظلم پر احتجاج کروں یا ظلم کے ردعمل میں جو ظلم ہوا ہے، اس کی مذمت کروں، لیکن کوئٹہ کی ہزارہ برادری ایک عرصے سے ظلم برداشت کر رہی ہے مگر اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کیا ہمارے بے حس حکمران ان کے مطالبات پر کان صرف اس وقت دھریں گے جب ان سوگواروں کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ جائے گا۔ شاید ہمارے یہ سوگوار بھی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کے مسلک کی وجہ سے نہیں ہو رہا، بلکہ یہ وہی ظالم ہیں جو اہل سنت والجماعت کی مسجدوں میں نمازیوں کو بموں سے اڑاتے ہیں، جو مارکیٹوں اور بازاروں میں بلا امتیاز مسلک، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں کو ہلاک کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عرصے سے شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش میں بھی مشغول ہیں۔ چنانچہ اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء کو شہید کرنے والے گروہ بظاہر الگ الگ ہوں گے لیکن ان کا سرغنہ ایک ہی ہے اور مقصد ان دونوں مسالک کے افراد کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر کے پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان کی تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود سنی اور شیعہ عوام پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ خود عوام بھی ان بدزبان پیشہ وروں کو لگام دیں جو بزرگان دین کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی اس مافیا کا حصہ ہیں جن کی خواہش ملک میں شیعہ سنی فساد برپا کر کے پاکستان کو تباہ کرنا ہے۔ ان کی زبان اور قاتلوں کی تلوار ہم مسلک ہیں چنانچہ باقی تمام مسالک کے عوام کو ان کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے، یاد رکھیں، ایک تلوار ہے اور اس کے مقتول ہم دونوں ہیں۔
تازہ ترین