• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب اسمبلی نے حالیہ دنوں پنجاب کے نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے تعلیمی (ترمیمی) بل 2016ء منظور کیا ہے۔ا س سے پہلے اسی نام سے ایک بل 2015ء میں پیش کیا گیاتھا۔ یہ قانون نجی اسکولوں اور کالجوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس خود کو رجسٹر ڈکرائیں تاکہ اُن کی طے کردہ فیس کو کنٹرول کیا جاسکے۔ ابھی اس رجسٹریشن اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا لیکن قانون نے نجی اسکولوں کو حکم دیا ہے کہ وہ 2015-16 کے تعلیمی سال کے لئے فیسز میں اضافہ ہر گز نہ کریں۔ قانون مزید اعلان کرتا ہے کہ حکومت کی رجسٹریشن اتھارٹی ہی تمام اسکولوں کو فیسز میں اضافے کی اجازت دے گی اور یہ پانچ فیصد سے زیادہ ہرگز نہیں ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کے اس اقدام کو عوام کی ایک بڑی اکثریت پسند کرے گی ، لیکن کیا حبیب جالب کے شعر پڑھنے والے پنجاب کے طاقتور وزیر ِ اعلیٰ نے ریاست کی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری، معاشی سرگرمیوں کو باقاعدہ بنانے اورتعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی پالیسی کو نقصان تو نہیں پہنچا دیا؟کیا پی ایم ایل (ن) کی پالیسی ان شعبوں کو تقویت دینا نہیں؟پنجاب اسمبلی کے اس اقدام سے وہ طبقہ ضرور خوش ہوگا جو اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجنا چاہتا ہے لیکن وہ مطلوبہ فیسیں ادا نہیں کرنا چاہتا۔ کیا پی ایم ایل (ن) جمہوری سوشلزم کی طرف قدم بڑھا رہی ہے؟پاکستان میں آخری مرتبہ ہم نے سوشلزم، کمیونزم، سیکولرازم، کیپٹل ازم ، وغیرہ پرکوئی کب مکالمہ سنا تھا؟ ہم نے ریاست اور شہری کے درمیان تعلق کاتعین کرنے کے لئے آخری مرتبہ بحث کب کی تھی؟یا اس بات کا جائزہ کب لیا تھا کہ ریاست شہریوں کی کیسی سرگرمیوں میں مداخلت کرسکتی ہے کن میں نہیں؟ ہم نے اپنی سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کی آخری مرتبہ چھان پھٹک کب کی تھی کہ ہماری سیاسی جماعتیں منطق یا استدلال کادامن تھام کر جذباتی اشتعال سے گریز کریں گی؟
ایسا لگتا ہے کہ ہم اُس سیاسی اور فکری اشرافیہ کے بیانیے کے اسیر ہوگئے ہیں جو 60اور70 کی دہائی میں بہت مقبول تھا جب نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد جمہوریت سوشلزم اور عام شہری کو تقویت دینے والے معروضات پروان چڑھے اور ہمارا خیال تھا کہ دنیا میں معاملات آگے بڑھانے کا یہی انقلابی راستہ ہے۔ انہی تصورات سے فکری جلا پاتے ہوئے پی پی پی نے 70 کی دہائی میں ادارے قومی تحویل میں لینے کی پالیسی اپنائی اور سرمایہ کاری کا کباڑا کردیا۔ جب ضیاالحق کے شب خون نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو ہماری توجہ سول اور ملٹری کے درمیان حائل تقسیم کی لکیر پر ہوگئی۔ ہماری توجہ کا تمام تر ارتکاز انتخابی جمہوریت کی واپسی پر تھا تاکہ فوجی حکومت سے نجات سکیں۔ اس کی وجہ سے ہم اُس وقت دنیا میں سوشلزم اور کمیونزم کے حوالے سے ہونے والی بحث کا حصہ نہ بن سکے۔ اس دوران دیوار ِ برلن کا انہدام دیکھنے میں آیااورمعاشی سرگرمیاں ریاست کے کنٹرول سے باہر چلی گئیں اور آزاد معیشت قائم ہوئی ۔ جب پی پی پی 1989 ء میں ایک لبرل پارٹی کے طور پراقتدار میں آئی تو اس نے بھٹو دور میں ادارے قومی تحویل میں لے کر تباہ کردینے کی معذرت تک نہ کی، اور اداروں کو نجی تحویل میں دینے کی پالیسی کی حمایت شروع کردی۔
چنانچہ آج، 2016ء میں ہم اسی الجھن کا شکار ہیں، ایک طرف ہم سابق دور کے سوشلز کے انقلابی تصورات ہماری ذہن میں سمائے ہوئے ہیں ، ہماری زبان پر جالب کے اشعار ہیں، تو دوسری طرف ہم فری مارکیٹ اور نج کاری کے بہت بڑے حامی ہیں۔ مثال کے طور پر پی ایم ایل (ن) کی طرف دیکھیں ، جب ذاتی کاروبار کی بات ہو تو شریف برادران فری مارکیٹ کے حامی، جب حساب کتاب کی بات ہو تو پی ایم ایل (ن) نج کاری کے سب سے بڑی داعی، لیکن جب عوام کو خوش کرنا مقصود ہو تو پھر حکومت چیزوں کی قیمتوں کا تعین کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 18 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ شہریوں کو کوئی بھی کاروبار یا پیشہ اختیار کرنے کا حق حاصل ہوگا ،لیکن یہ تجارت یا پیشے کو ایک لائسنس کے نظام کے ذریعے باقاعدہ بناتا ہے۔ اس آرٹیکل کا مدعا واضح ہے کہ اگر ریاست چاہے تو وہ تجارت اور کاربار پر اپنی اجارہ داری قائم کرسکتی ہے ، جیسے اس نے 70 کی دہائی میں کیا تھا، لیکن پھر ہم نے اس تجربے کا حشر بھی دیکھ لیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کی ریاست لائسنس کے نظام کے ذریعے کسی پیشے یا تجارت کو ریگولیٹ کرسکتی ہے ۔ اب ہم وکلا اور ڈاکٹروں کی سروسز کو باقاعدہ بنانے کے لئے قوانین رکھتے ہیں۔ اسی طرح ریاست کا ن کنی، ٹیلی کام اور نجی ٹی وی چینلز کے لائسنس جاری کرتی ہے۔ تاہم ایک آزاد معیشت میں اس طرح لائسنس کے ذریعے کسی کاروبار یا پیشہ کو باقاعدہ بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ریاست کاروبارکے منافع کو طے کرے یا اشیا یا سروسز کی قیمت کا تعین کرنا شروع کردے۔آزاد معیشت کا آرٹیکل اس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ ریاست معاشی سرگرمی کو کنٹرول کرے۔ اس کی بجائے اس کی ذمہ داری ہے کہ پروگریسو ٹیکسز کے ذریعے دولت کی تقسیم کو یقینی بنائے۔ لائسنسنگ اور ریگولیٹری کا اطلاق مارکیٹ میں طلب اور رسد کے قانون پرنہیں ہوتا۔ اس کی مطلب منافع میں کمی لاکر صارفین کوخوش کرنا بھی نہیں ہوتا۔ یقینا لائسنسنگ اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے آپ کاروبار کرنے والوں کو آپ فلاحی سرگرمیوںپر پابند نہیں کرسکتے۔ اس اتھارٹی کا مقصد صرف اجارہ داری کو روکنا اور صحت مندانہ مسابقت کے لئے کاروبار کرنے والے تمام افراد کے لئے میدان ہموار کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آرٹیکل 18(b) ریگولیشن کی ’’آزاد مسابقت کے مفاد ‘‘ کے حوالے سے بات کرتا ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ کسی کو بھی اجارہ داری قائم کرنے اور نئے آنے والوں کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اب واپس اسکول فیسوں کے معاملے پر آجائیں۔ تعلیم کے شعبے میں طلب اور رسد کے درمیان ہوش ربا فرق موجود ہے، لیکن یہ فرق کسی یا کچھ نجی اداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نجی اسکولوں کی فیس میں اضافہ اجارہ داری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے مترادف نہیں۔ ہمارے سامنے ایسے اسکول بھی ہیں جن کی ماہانہ فیس پانچ سو روپے ہے تو دوسری طرف کچھ اسکول ایک ہزار ڈالر ماہانہ فیس وصول کررہے ہیں۔ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ ریاست اس شعبے میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری کا نصف بھی ادا نہیں کررہی ہے۔ ایک ملک ، جہاں نوجوان آبادی بڑھ رہی ہے اور جہاں پچیس ملین بچے اسکول نہیں جاتے، تو یقینا موجودہ نجی اسکول طلب میں اضافے کو دیکھ کر اپنی فیس بڑھائیں گے۔ چونکہ مارکیٹ میں کوئی موثر مسابقت کا نظام موجود نہیں ، اس لئے ناقص کارکردگی دکھانے والے اسکول بھی بھاری فیس وصول کررہے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ریاست اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے انہیں اپنی مرضی کی فیس وصول کرنے پر مجبو رکرے۔ ریاست کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنی ترجیح درست کرے اور عوام کو معیاری تعلیم فراہم کرے۔ ہمارا آئین بھی حکومت کو پابندکرتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت تعلیمی سہولت فراہم کرے۔ جب ایک مرتبہ ریاست معیاری تعلیم مفت فراہم کرنے لگے گی تو لوگ نجی تعلیمی اداروں کو ویسی ہی تعلیم کے لئے بھاری فیس کیوں ادا کریں گے؟ اُس وقت صرف وہی نجی تعلیمی ادارے قائم رہ پائیںگے اور بھاری فیس وصول کریں گے جن کا معیار سرکاری اسکولوںسے بہتر ہوگا۔
تاہم ریاست کے پاس تعلیم کے لئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ اس لئے اس کے پاس بہترین حکمت ِعملی یہ ہونی چاہئے کہ یہ نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرے۔ چنانچہ اسے فیسوں کا تعین کرنے جیسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا۔ یہ دلیل کہ تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے ، تو کیا زندگی اس سے بھی ضروری نہیں۔ تو پھر حکومت وکلا اور ڈاکٹروں کی فیسوں کا تعین کیوں نہیں کرتی؟یہ کہنا ایک بودی دلیل ہے کہ اسکول بھاری منافع کمارہے ہیں۔ کیا حکومت کسی معاشی سرگرمی کے منافع کا تعین کرنے کے لئے لکیر کھینچ سکتی ہے؟
تازہ ترین