• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالغفور جاوید

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہرہے۔ ملک کے ہر صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد یہاں رہائش پذیر ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب یہ صوبائی زبانوں کا بھی مرکز بن چکا ہے۔کراچی جو کبھی محدود آبادی کا شہر تھا، پورٹ کی وجہ سے سمندر کے اطراف تک ہی محدود تھا، مگر اس کو اپنا بنانے والوں نے اسے لامحدود کردیا۔ اور یہ ’’مائی کولاچی‘‘ سے کراچی بن گیا۔

کراچی قیام پاکستان کے بعد ملک کا دارالحکومت تھا ،یہیں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس 10؍اگست 1947ء کو سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں منعقد ہوا تھا، جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے سب سے پہلے حاضری کے رجسٹر پر دستخط کیے تھے، مگر دس برس بھی پورے نہ ہوئے کہ یہ دارالحکومت کی حیثیت کھو بیٹھا۔ 1956ء کا آئین، جس کا نفاذ 23 مارچ کو ہوا تھا، 1958ء کے مارشل لاء کے بعد منسوخ ہوگیا۔ جنرل ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے تو دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا، مگر کراچی کی شناخت پھر بھی برقرار رہی۔ اس شہر کی تجارتی حیثیت کوئی نہ چھین سکا۔ ایوب خان نےاس ملک میں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی، جس کے سب سے زیادہ اثرات کراچی پر مرتب ہوئے۔ بہت تیزی کے ساتھ نہ صرف تجارتی بلکہ صنعتی انقلاب کا بھی مرکز بن گیا۔ ملک کے دیگر شہروں اور دیہی علاقوں کے لوگوں نے روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رخ کیا، جنہیں بڑے پیار اور خلوص سے نہ صرف گلے لگایا گیا بلکہ انہیں آباد کرنے میں ہر طرح کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔ آبادی تیزی سے بڑھی اور بڑھتی ہی گئی۔ نئی سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ بڑی بڑی عمارتیں بنیں۔ نئی مارکیٹیں وجود میں آئیں۔ تعلیمی اداروں کا جال بھی بچھادیا گیا۔

اس شہرکو قیام پاکستان کے بعد جن لوگوں نے دیکھا، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے رات کو کراچی کی سڑکوں کو دھلتے دیکھاتھا۔ یہاں گندگی کے ڈھیر نہ تھے۔ سڑکیں صاف ستھری اور ٹریفک کے شور سے آزاد تھیں۔ لوگوں کو سفر کی سہولت پہنچانے کے لیے ٹرامیں چلا کرتی تھیں، جن کا مرکز صدر تھا، جو مسافروں کو صدر سے براستہ بندر روڈ آج کا ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک اور صدر سے ہی سولجر بازار تک آیا اور جایا کرتی تھیں۔ جھگڑے فساد اور افراتفری کا نام و نشان نہ تھا۔ بڑے باغات بالخصوص صدر کا جہانگیر پارک اتنا خوب صورت اور صاف ستھرا تھا کہ لوگ اپنے بیوی بچّوں کو لے کر آتے تھے۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد پڑھنے میں مصروف دکھائی دیتی تھی۔ سکون تھا، اچھا ماحول تھا۔ صدر کا علاقہ کشادہ ہوا کرتا تھا، نہ ٹریفک کا ہجوم تھا، نہ پتھارے والوں کی رکاوٹیں، نہ چوری ڈکیتی اور نہ دہشت گردی۔ یہ سب اسی شہر کی خصوصیات تھیں۔

رات ہو یا دن، لوگوں کے ہجوم بلاخوف و خطر ہر علاقے بالخصوص کراچی کی پرانی آبادیوں جن میں کھارادر، میٹھادر اور لی مارکیٹ کے علاقے قابل ذکر ہیں، میں نظر آیا کرتے تھے۔ دعوتیں ہوتی تھیں اور خلوص و محبت کا ایسا مظاہرہ تھا، جس کی نظیر نہیں ملتی، مگر پھرکیا ہوا، اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا۔ پرسکون ماحول کی جگہ شور شرابے نے لے لی۔ قانون پر عمل داری کی جگہ لاقانویت نے لے لی۔ خلوص محبت کی جگہ شکوک و شبہات نے لے لی۔ آج حیرت ہوتی ہے، صدر کو دیکھ کر ،جہاں پتھارے والوں کا راج ہے، ٹریفک کا ہجوم اور شور شرابہ ہے۔ کہاں گیا وہ جہانگیر پارک، جہاں طلبہ کے گروپس پڑھائی میں مصروف ہوا کرتے تھے۔ ۔ کراچی بدلتا ہی گیا،اس کی حیثیت پرانی نہ رہی ۔یہ اپنی شناخت کے لیے جدوجہد میں مصروف رہا، مگر سب بے معنی ثابت ہوا، اور یہ شہر پہلی مرتبہ دہشت گردی کا شکار ہوا۔ اس طرح کہ صدر بوہری بازار میں دھماکا ہوا اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ البتہ کراچی کے شہریوں نے ہمت نہ ہاری۔ جلد ہی کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں، مگر کراچی وہ کراچی نہ رہا۔ 2008ء میں ترقیاتی کام ہوئے۔ سڑکیں چوڑی کی گئیں۔ اوورہیڈ برج تعمیر کیے گئے۔ جگہ جگہ ’’یوٹرن‘‘ بنائے گئے، جس سے کراچی کا نقشہ تو بدل گیا، مگر لاقانونیت پر عمل پیرا ہونے کا نیا جال بن گیا۔ ٹریفک جام ہونا یہاں ایک معمول بن چکا ہے۔ اس کا فائدہ لوٹ مار کرنے والے دہشت گرد اٹھاتے ہیں، جوکھڑی کاروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے سب کچھ آسانی سے چھین لیتے ہیں۔ ڈکیتی، اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ وہ علاقے برباد ہوگئے جو امن کا گہوارہ کہلاتے تھے۔کاروبار تباہ ہوا۔ سرمایہ کاری ختم ہوگئی اور بے روزگاری بڑھ گئی۔ کراچی کو ان مافیا سے کیسے نجات ملے گی۔ کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ کاروباری اور صنعتی شہر اپنی شناخت کھوتا جا رہا ہے۔ کاش ،کراچی دوبارہ وہی شہر بن جائے جو قیام پاکستان کے وقت تھا۔

تازہ ترین