• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016ء ‘‘کا اصل مقصد عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہ بل مظلوم خواتین کی حقیقی داد رسی کا باعث اسی وقت بن سکتا ہے جب یہ بل تمام نقائص وعیوب سے پاک ہو۔ موجودہ حالت میں یہ معاشرے کو سوائے انتشار، اختلاف، خلفشار اور خاندانی نظام کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔اگر صرف عور ت کو وہی حقوق دیدئیے جائیں جو دینِ اسلام نے دئیے ہیں تو کسی بل کی ضرورت ہی نہ پڑے۔آئیے! آج قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ عورت کے حقوق کیا کیا ہیں؟اگرعورت کوماں کی حیثیت سے دیکھا جائے توماں کے لیے اس سے بڑھ کرکیا اعزازاورمقام ہوگا کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کوملنے والی لاریب کتاب میں خالق کائنات نے اپنی عبادت کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیا اوران کے سامنے ’’ اف ‘‘ کہنے سے بھی منع فرمایا۔ ماں کے قدموں کے نیچے آپﷺ نے جنت بتائی۔ ایک دفعہ جب آپ سے پوچھاگیایارسول اللہ ! کس کے ساتھ میں سب سے زیادہ اچھاسلوک کروں ؟دنیا میں سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کی مستحق کون ہے؟ توآپ نے سائل کے جواب میں تین دفعہ ارشادفرمایا:’’ تمہاری ماں‘‘۔ مسلم4622 ماں توماں ہے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی نسبت سے ماں کی بہن یعنی خالہ کے ساتھ بھی ماں کی طرح حسن سلوک کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایا؛’’خالہ (مقام ومرتبے میں) ماں کی طرح ہے‘‘۔ترمذی: 1904اگرعورت کو بیٹی اوربہن کی حیثیت سے دیکھا جائے تومحسن انسانیتﷺ کی تعلیمات اس بارے میں چمکتے آفتاب کی طرح ہیں۔ بیٹی کوسماج میں زحمت اوربوجھ سمجھے جانے کی وجہ سے جینے کا حق بھی حاصل نہ تھا آپؐنے بیٹی کو نہ صرف باعث رحمت قراردیابلکہ اُس کی صحیح تربیت کرنے والے کو اپنا قرب عطا ہونے کی بشارت بھی سنائی، چنانچہ محسن دوعالم ﷺکاارشادہے:’’ جس شخص نے اپنی دوبیٹیوں کی اچھے طریقے سے کفالت کی ہوگی، قیامت کے دن میں اوروہ اس طرح اکٹھے جنت میں داخل ہوں گے، جیسے یہ دونوں(شہادت اوربیچ کی )انگلیاں‘‘۔ ترمذی: 1914یعنی میری اوراس کی قربت اوررفاقت اس طرح ہوگی جیسے بیچ کی اورشہادت کی انگلیاں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ ایک روایت میں آپ ؐنے بیٹی کو آتش دوزخ سے بچانے کا وسیلہ قراردیاایضا: 1916۔ ایک اورفرمان مبارک میں بیٹیوں اوربہنوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے والے کوجنت کی خوش خبری سنائی، ارشادفرمایا:’’ جس شخص کی تین بیٹیاںیاتین بہنیں، دوبیٹیاںیادوبہنیں ہوںوہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے بارے میں اللہ سے ڈرے تو اس کاٹھکانہ جنت ہے‘‘ترمذی: 1916 اگرعورت کوشریک حیات اوربیوی کی حیثیت سے دیکھاجائےتوآپ ﷺنے نہ صرف زبانی طورپربیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیابلکہ عملی طورپربھی آپ نے ازواج مطہرات کے ساتھ محبت اورحسن سلوک کے ساتھ زندگی گزارکر امت کوگھرمیںپرسکون زندگی گزارنے کاطریقہ سمجھایا۔ آپ نے بیوی کے ساتھ بہترسلوک کوکسی مرد کے بہترہونے کامعیارقراردیا، سرکاردوعالمؐ نے ارشادفرمایا:’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کاسلوک اپنی بیوی کے ساتھ بہترہو‘‘۔ مسنداحمد: 10106۔ اللہ کی رضااورخوشنودی کے لیے بیوی کے منہ میںلقمہ ڈالنابھی باعث اجروثواب ہےمسلم: 1628۔ ایک روایت میں آپؐ نے ارشادفرمایا:’’ یہ دنیا ساری کی ساری لطف اندوزی کی چیزہے، اوردنیاکی بہترین متاع جس سے انسان نفع اٹھائے وہ نیک صالح عورت ہے‘‘۔مسلم2668۔بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق سنت ہے۔ آپ اپنی زوجہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہاکوپیاراورمحبت سے اصل نام کی بجائے حمیراکہہ کرپکارتے۔ آپ نے بیویوں کوچہرے پرمارنے اورانہیں برابھلاکہنے سے منع فرمایا، ایک صحابی نے پوچھایارسول اللہ !ہماری بیویوں کاہمارے اوپرکیا حق ہے توآپ نے ارشادفرمایا:’’جب تم کھاؤ اس کوبھی کھلاؤ، جب تم پہنواس کوبھی پہناؤ، اوریہ کہ انہیںچہرے پہ نہ مارو، اوربرابھلانہ کہو۔ ‘‘ابودائود: 1830 اگران رشتوں سے ہٹ کرعورتوں کے متعلق آپ کے عمومی فکرکودیکھا جائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں جونصیحت اور وصیت فرمائی اس سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ آپ کوعورتوں کے ساتھ بھلائی کاکس قدرخیال تھا، چنانچہ صنف نسواں کے متعلق آپ نے اپنے آخری خطبے میںخاص تاکید اوروصیت کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’مجھ سے عورتوں کے بارے میں اچھا سلوک کرنے کی وصیت قبول کرلو‘‘۔ بخاری: 4787 یہ ایسی وصیت ہے جس میں دنیا کی تمام عورتوں کے ساتھ چاہے وہ رشتے دارہوں یاغیررشتے دار، مسلم ہوں یاغیرمسلم سب کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم شامل ہے۔
سرکاردوعالمﷺ نے عورتوں کے ساتھ صرف حسن سلوک کی ہی ترغیب نہیں دی بلکہ ان کو تعلیمی، مالی، تمدنی، معاشرتی حقوق بھی عطافرمائے ہیں۔ اگرتعلیمی سطح پردیکھا جائے تو اسلام سے قبل تعلیم یافتہ عورتوں کاذکرشاذونادرملتاہے۔ لیکن آپﷺ کی بعثت کے بعدعلوم وفنون سے بہرہ ورعورتوں کی طویل قطار نظر آتی ہے۔ حضرت عائشہ، ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریک۔ اندلس کی مشہورمحدثہ ام سعد، علم حساب وہندسہ کی ماہرقرطبہ کی لبانہ، زیب النساء جیسی خواتین کی ایک طویل فہرست ہے۔ کیونکہ آپ ﷺنے مردوعورت پرکم ازکم بقدرضرورت علم سیکھنے کوضروری اورفرض قراردیا، اسلام سے قبل دنیا کے اکثر مذاہب میں خواتین کا میراث میں کسی قسم کاکوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا، عربوں کا خیال تھاکہ جو لوگ قبیلہ کی مدافعت اوراس کاتحفظ کر سکتے ہوں، لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی میراث پانے کے حقدار ہیں، یہودیت اورعیسائیت میں بھی صنف نازک کوحق میراث سے محروم رکھاجاتا، ہندوؤں کے یہاں بھی عورت کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ انیسویں صدی تک یورپ میںبھی عورتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، اسلام نے جہاں مرد رشتہ داروں کو میراث کاحصہ دار بنایا، وہیں ان کی ہم درجہ خواتین کو بھی میراث کا مستحق قرار دیا، والد کی طرح والدہ کو، بیٹے کی طرح بیٹی کو، بھائی کی طرح بہن کو، شوہر کی طرح بیوی کو وغیرہ، آج پوری دنیا میں خواتین کو جو ترکہ کا مستحق مانا جاتا ہے، وہ دراصل شریعت اسلامی کا تحفہ اورعطیہ ہے۔ اگر معاشی لحاظ سے دیکھاجائے توعورت کا نان ونفقہ اورخرچ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ۔ بیوی ہے تو شوہر پر اس کاخرچہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہیں۔
کس قدربدقسمتی ہے کہ آج ہم عورتوں کے حقوق کے لیے مغرب کی طرف نگاہِ امید اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ اسلام عورت کوسب سے زیادہ اور سب سے بہتر حقوق فراہم کرتا ہے، انہیںمعاشرے میں عزت و و قار کا حامل مقام عطا کرتا ہے۔ کاش !!وہ مغرب زدہ مسلم مفکرین جو صبح و شام حقوقِ نسواں کے نام پر بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کے راستے کھولنے کےچکر میں رہتے ہیں، مشرقی اور بالخصوص اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدن کو بُرا کہنے پر ہی اپنی طاقت خرچ کئے رکھتے ہیں، صرف اتنادیکھ لیں کہ ان کی امیدوں کے مرکزاورمحورمیں خاندانی نظام کس قدرتباہی وبربادی کاشکارہوچکاہے۔
دیکھیں!وجودِ زن تصویرِ کائنات میں رنگ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ خلوص ومحبت سے گندھا ہوا عورت کا وجود خوشی ومسرت سے بھرپور بہار آفریں زندگی کی ضمانت ہے۔ جہاں عورت مرد کی زندگی سنوارنے کا سبب بنتی ہے وہیں گھریلو ماحول میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کو کون بتائے کہ عورت کی مظلومیت کے اسباب وہ نہیں ہیں جن کا ڈھنڈورا تم پیٹتے ہو۔ جن اسباب کو تم بیان کرتے ہو وہ تو اس کے تحفظ، امان اور راحت کے ضامن ہیں اور جس کو تم عورت کی آزادی کہتے ہو اس میں توعورت کی عزت تار تار ہوتی ہے۔اسلام نے عورت کو گھر کا ماحول فراہم کرکے اس کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا مقدس رشتہ فراہم کیا جبکہ مغرب زدہ لوگوں نے گھر سے باہر نکال کر عورت کو بھی تباہ کیا اور اپنا خاندانی نظام بھی برباد کرڈالا۔ آج مغرب پریشان ہے اور پھر عورت کو گھر تک محدود کرنے پر سوچ رہا ہے کیونکہ عورت کو ’’باہر‘‘ نکالنے میں جتنے نقصانات ہورہے ہیں ان کی تلافی ممکن نہیں۔بس ایک ہی حل ہے کہ عورت کو اس کے فطری فریضے کی ادائیگی کے لیے گھر کی ملکہ بنادیا جائے،لیکن افسوس کہ ہم عورت کو ’’باہر‘‘ نکالنے کے لیے طرح طرح کے ایسے بل منظور کروانے پر تُلے ہوئے ہیں جن کی شقیں اور بنیادی مقصد ہی شریعت سے متصادم ہے۔ حقوقِ نسواں سے متعلق قوانین بنتے رہیں گے لیکن بنتِ حوا کا تحفظ نہیں ہوگاکیونکہ یہ لوگ سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں۔ جن چیزوں کو وہ آزادی کہتے ہیں وہ عورت پر ظلم ہے اور جن کو وہ ظلم کہتے ہیں ’’بنتِ حوا‘‘ کی حقیقی آزادی وہی ہے۔
تازہ ترین