• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ۔ اگر بیٹی والد سے پہلے فوت ہوجائے تو کیا اس کا یا اس کے بچوں کا والد کی وراثت میں حصہ ہوگا،جب کہ اس کے دوسرے بہن بھائی حیات ہوں؟ (افتخار احمد)

جواب:۔ وارث اسے کہتے ہیں جو وراثت یاترکے میں اپنے حصے کا حق دار ہو اور مُورِث اسے کہتے ہیں جو ترکہ چھوڑ کر وفات پاچکاہو۔اگرکسی شخص کی زندگی میں اُس کا کوئی بیٹا یا بیٹی فوت ہوجائے اور اُس شخص کے مزیدبیٹے اور بیٹیاں حیات ہوں ،تو فوت شدہ بیٹے ،بیٹی یا اُن کی اولاد کو اس شخص کے ترکے سے کچھ نہیں ملے گا،وارث صرف وہی ورثاء بنتے ہیں جو مُورِث کی وفات کے وقت حیات ہوں، کیونکہ تقسیمِ وراثت کاایک مسلّمہ اصول ہے : ’’قریب کاوارث دور کے وارث کو محروم کردیتا ہے‘‘،اسے ’’اصولِ حَجبْ‘‘ بھی کہتے ہیں۔تاہم اگرآپ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کی اولاد کو بطور استحسان کچھ دے دیں ،تو اجر پائیں گے ،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:’’اورجب(ترکے کی)تقسیم کے موقع پرقرابت دار،یتامیٰ اورمساکین آجائیں (جوشرعاً وارث نہیں بن سکتے)، تو انہیں بھی (رضاکارانہ طور پر)ترکے میں سے کچھ دے دواوران سے اچھی بات کہو،(سورۃ النساء:8)‘‘۔

قرآن کایہ حکم ایجابی تونہیںہے ،استحبابی ہے،اس کی حیثیت مقاصدِخیرکے لئے سفارش اورترغیب کی ہے۔لہٰذا جتنا حصہ والد کی وفات کے وقت اُس فوت شدہ بیٹے یا بیٹی کے حیات ہونے کی صورت میں اسے ملناچاہیے تھا،اگرتمام ورثاء اتفاق ِرائے سے اتنا یا اس سے کچھ کم تبُّرعاًاوراستحساناً رضاکارانہ طورپرتقسیم ترکہ سے پہلے ان کی اولاد کوبطورھبہ دےدیں تویہ ایک مستحسن امرہوگا،یہ عمل صلہ رحمی اور اللہ تعالیٰ کی رضاکاباعث ہوگااوراس کا انہیں اجرملے گا۔قرآن مجیداس کی حکمت بیان فرماتاہے :ترجمہ:’’اور لوگ (یہ سوچ کر)ڈریں کہ اگر وہ (فوت ہونے کے بعد)اپنے پیچھے (خدانخواستہ)کمزور (بے سہارا)اولاد چھوڑ جاتے، توانہیں ان کے( رُلنے کا)خوف ہوتا، تو انہیں چاہئے کہ اللہ سے ڈرتے رہیںاور درست بات کہیں،(سورۃ النساء:9)‘‘۔پس قرآنِ کریم نے بتایا کہ اپنے پسماندگان پر کسی ایسے مشکل مرحلے کا تصور کرکے غیر وارث نادار اور کمزور رشتے داروں پر ترس کھاکر تقسیم وراثت کے وقت ان کی مدد کرلیا کرو۔

تازہ ترین