• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ 10؍اپریل 2019ء کو صحرائے تھر میں پاور پلانٹ کے افتتاح کے لئے جونہی کمپیوٹر پر ’’کلک‘‘ ہوا، 330میگا واٹ کے دو بجلی گھروں نے متحرک ہو کر ریگستان کے باسیوں، پورے ملک کے لوگوں اور مستقبل میں مملکت پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھنے والوں کو بتا دیا کہ اگرچہ ماہِ جون میں کمرشل بنیادوں پر بجلی کی مکمل ترسیل شروع ہونے تک سردست سو، سو میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو گی مگر تھر کی زمین کے نیچے مدفون کالا سونا نہ صرف بجلی کی صورت میں ہماری صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لئے فعال ہو چکا ہے بلکہ اسی زمین کی مختلف تہوں میں موجود میٹھے پانی کے ذخائر زرعی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے لئے بھی دستیاب ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں تھر کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کو پاکستان بھر کے لئے باعثِ فخر قرار دیتے ہوئے درست نشاندہی کی کہ اس پلانٹ سے حاصل ہونے والی بجلی پورے ملک کو فائدہ پہنچائے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھر کا صحرا، جہاں کی غربت اور زندگی کی سختیوں کو راحتوں میں بدلنے کی آرزو سبھی رکھتے ہیں، کمپیوٹر کے ایک ’’کلک‘‘ کے بعد ایسے امید افزا پیغام کی صورت اختیار کر چکا ہے جو پورے ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ صحرائے تھر کے کوئلے سے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے جیسی ہی بڑی کامیابی ہے۔ یہ بات کئی معنوں میں قرینِ حقیقت ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ مقامی ذرائع سے بروئے کار لایا گیا اور یہ وطنِ عزیز میں انسانی وسائل سے بنایا گیا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے۔ 22بلاکس پر مشتمل دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر میں شامل تھر کول مائنز کی توانائی کو بجلی کی صورت میں بروئے کار لانے کا پیچیدہ طریقہ کار وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے وسائل مجتمع کرکے جس حیرت انگیز طور پر سبک بنایا گیا، اس کا کھلے دل سے ہر سطح پر اعتراف کیا جانا چاہئے۔ پروجیکٹ بروئے کار لانے کے لئے زیر زمین کھدائی اور گیس کی تلاش کے کام میں اگرچہ حکومت کا کردار شامل ہے، تاہم بجلی کی تقسیم میں حکومت شیئر ہولڈر نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انہوں نے جس پروجیکٹ کا افتتاح کیا، اس کا سنگِ بنیاد ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے رکھا تھا اور انہوں نے ہی 1993ء کے پارٹی منشور میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا تصور پیش کیا تھا۔ تھر کی کانوں کے مزید بلاک بروئے کار لانے کا عمل جوں جوں آگے بڑھے گا، اس سے یقینی طور پر ریگزاروں، وہاں رہنے والوں اور پورے ملک کے عوام کی تقدیر بدلے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کے اعلان کے مطابق ابتدا میں اسلام کوٹ اور بلاک ٹو کے دیہات میں رہنے والوں کے بجلی کے بل سندھ حکومت ادا کرے گی جبکہ اگلے مرحلوں میں مفت بجلی کی سہولت باقی ماندہ تھر پارکر کو بھی حاصل ہو جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہوا تھر میں این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا کیمپس کام شروع کر دے گا۔ تھرکول مائنز پروجیکٹ کے مختلف بلاکس میں کام اگرچہ ابتدائی مرحلے میں ہے مگر خطے کی تقدیر بدلنے کے آثار اس وقت بھی نمایاں ہیں۔ تھر کی خواتین ڈرائیونگ سیکھ رہی ہیں۔ اداروں میں مقامی مزدوروں کی کھپت کے علاوہ دوسرے مقامات سے مزدوروں کی آمد، ان کی رہائش اور سہولتوں کی نقشہ گری یقینی طور پر کی جا چکی ہو گی۔ محنت کشوں کی تنخواہوں کے بین الاقوامی سطح پر آنے کے امکانات روشن ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جو آمدنی تھرپارکر اور قرب و جوار سے حاصل ہو، اس کا مناسب حصہ اسی علاقے کی بہتری اور عوامی فلاح کے اقدامات پر صرف کیا جائے۔ اس بات پر بہر طور ماہرین کو غور کرنا ہوگا ماضی میں سوئی فیلڈز سے نیشنل گرڈ میں براہِ راست گیس شامل کرنے کے بعد جو مشکلات پیش آئیں، ان کے تدارک اور مقامی لوگوں کو ترجیحی بنیاد پر مفت بجلی فراہم کرنے کے لئے لوکل گرڈ اسٹیشن بنائے جائیں یا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے۔

تازہ ترین