• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک صنعت کار ہونے کی حیثیت سے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ پیداواری نقصانات سے صنعتوں پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعتیں بالخصوص 24 گھنٹے یومیہ اور 360 دن سالانہ پیداواری صلاحیتوں کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں۔ مختلف مذہبی اور قومی تہواروں پر تعطیل کے روز بھی مزدوروں کو دگنا اوورٹائم دے کر بھی ان صنعتوں کا پہیہ رکنے نہیں دیا جاتا لیکن موجودہ بجلی اور گیس کے بحران اور لوڈشیڈنگ نے ان صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ملک میں زیادہ تر ٹیکسٹائل ملز کی اپنی گیس سے پاور جنریشن کرتے ہیں لیکن سردیوں میں کم پریشر کے باعث گیس کی پیداوار میں کمی اور گھریلو صارفین میں گیس کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے ملک کو یومیہ2/ارب MMCF گیس کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کو مطلوبہ گیس سپلائی نہیں مل رہی۔ پنجاب میں ہفتہ بھر گیس کی سپلائی معطل ہونے کے باعث بے شمار صنعتیں بند ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بیرونی آرڈرز کی وقت پر شپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار ایکسپورٹ آرڈرز کینسل ہورہے ہیں جس سے بینکوں میں ڈیفالٹس میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ بیرونی قرضوں کی وقت پر ادائیگی کیلئے ملک کو زیادہ سے زیادہ ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمانے کی ضرورت ہے۔ اس سنگین صورتحال کے تحت صدر پاکستان نے اپٹما کے وفد کو ہنگامی بنیادوں پر مسلسل 16 گھنٹے توانائی سپلائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن کیا یہ مستقل بنیادوں پر ممکن ہوسکے گا؟آیئے آج یہ تجزیہ کیا جائے کہ ملک کو انرجی کے موجودہ بدترین بحران کے کیا اسباب ہیں؟
دنیا میں ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے 0.24 میٹرک ٹن فیول استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ہم ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے 0.68 میٹرک ٹن فیول استعمال کرتے ہیں۔ دنیا میں کم سے کم 8% اور زیادہ سے زیادہ 12%لائن لاسز قابل قبول ہیں لیکن پاکستان میں ہمارے لائن لاسز 20% سے40% تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بجلی کی پیداواری صلاحیت بھی عالمی معیار کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ دنیا میں قدرتی گیس کی مجموعی پیداوار سے 5% تک ایل پی جی حاصل کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ ایک فیصدسے بھی کم ہے۔ ہم فرنس آئل، گیس اور ہائیڈرو سے مجموعی طور پر یومیہ 10000 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں اور ہماری شارٹ فال تقریباً 5000 میگاواٹ ہے۔ اس کے علاوہ ہماری بجلی کی کھپت تقریباً 10% سالانہ بڑھ رہی ہے جس کو حاصل کئے بغیر مطلوبہ 6% گروتھ کا ہدف حاصل نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی موجودہ گیس کی مجموعی پیداوار اس وقت یومیہ 2.7ٹریلین کیوبک فٹ ہے اور سردیوں میں یومیہ تقریباً 2/ارب کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سی این جی سیکٹر کو مجموعی گیس پیداوار کا تقریبا16% یعنی 400MMCF گیس سپلائی کی جارہی ہے، اس کے علاوہ 20% سے 22% یعنی 200MMCF سی این جی کی چوری کا تخمینہ لگایا گیاہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر سیکڑوں سی این جی لائسنس جاری کئے گئے۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے تقریباً 64%بجلی تھرمل اور 33%ہائیڈرو سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ متبادل توانائی اور کوئلے سے سستی بجلی کا حصول نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی اوسط پیداواری لاگت زیادہ ہے۔اسی طرح ہمارے ملک کی مجموعی توانائی کا 53.4%گھریلو صارفین،12.1%صنعت، 27.1% زراعت اور 7.4%تجارت میں استعمال ہو رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کی سب سے زیادہ کھپت صنعت میں ہوتی ہے۔گھریلو صارفین بجلی اور گیس سے چلنے والے اے سی، ہیٹرز اور گیزر کا استعمال بھی توانائی کی کھپت میں اضافے کا بڑا سبب ہے۔ مختصر مدت میں گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمیں قطر اور دوسرے ممالک سے ایل این جی گیس امپورٹ کرنا ہوگا لیکن اس کیلئے ملک میں ایل این جی ٹرمینل اور اس کا انفرااسٹرکچر ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ نئی پیٹرولیم پالیسی کے تحت پاکستان میں گیس کے نئے کنوؤں کی دریافت کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔ سندھ میں شیل گیس کے کثیر ذخائر دریافت ہوئے ہیں، ہمیں شیل گیس کو نکالنے اور اسے ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی کو جلد از جلد حاصل کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی کمپنی ENIنے حکومتی کمپنی کے ساتھ ایک جوائنٹ وینچر معاہدے پر کام شروع کردیا ہے۔ طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان، ایران گیس پائپ لائن اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائن کے منصوبے شامل ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایران نے اپنے ملک میں پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کے تحت اپنے حصے کے گیس پائپ لائن کا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے اور پاکستان کے حصے کی پائپ لائن جس کی مجموعی لاگت 1.3/ارب ڈالر ہے میں سے 500ملین ڈالر قرضہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکہ کو پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی بینک اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسی ڈونر ایجنسیاں اس منصوبے کی فنانسنگ میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ گزشتہ دور حکومت میں ہماری بڑے درجے کی صنعتی ترقی گروتھ ریکارڈ 18% تک پہنچ گئی تھی لیکن بجلی اور گیس کے بحران ، ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال اور اسٹیٹ بینک کے سابقہ گورنرز کی سخت مالیاتی پالیسی کے باعث بینکوں کے قرضوں پر اونچی شرح سود سے ہمارے بڑے درجے کی صنعتی گروتھ کم ہوکر صرف 2% سے3% تک رہ گئی جس کے باعث ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا جبکہ اس سال انڈیا کی بڑے درجے کی صنعتوں کی گروتھ6% رہی ہے۔ ہم نے آئندہ 10 سالوں کیلئے اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 8% سالانہ گروتھ حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے جس کے باعث ہم صنعتی شعبے میں ملازمتوں کے مواقع موجودہ 13%سے بڑھاکر 20% تک لے جاسکتے ہیں جس سے 40 لاکھ محنت کشوں کو صنعتی شعبے میں روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔
اس وقت پاکستان دنیا میں فیکٹری پیداوار میں 55 ویں نمبر پر آتا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں ہمارے صنعتی سیکٹر کا حصہ 24%ہے لیکن ملک میں گیس کے ذخائر میں کمی کے باعث اب حکومت کیلئے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ گھریلو صارفین، صنعت، بجلی گھروں ، فرٹیلائزر پلانٹس اور سی این جی کو بلاتعطل گیس کی سپلائی جاری رکھے۔ہمارا فریضہ ہے کہ قدرتی گیس جو ہمارا قومی اثاثہ ہے اور جس کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں کو نہایت موثر طریقے سے استعمال کریں۔ سی این جی کا متبادل فیول موجود ہے یعنی سی این جی سپلائی نہ ہونے کی صورت میں ڈیزل یا پیٹرول سے گاڑیاں چلائی جا سکتی ہیں لیکن صنعت کو گیس نہ ملنے کی وجہ سے اس کا پہیہ رک جاتا ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کے علاوہ صنعتی شعبہ ملک میں روزگار کے مواقع اور ایکسپورٹس کے ذریعے زرمبادلہ کماتا ہے، قدرتی گیس کے استعمال سے سی این جی کی کارکردگی صرف 13%جبکہ صنعتی شعبے کی کارکردگی 50%سے زیادہ ہے۔
جس کی بنیاد پر ہماری سفارش پر کابینہ نے گیس کی سپلائی میں گھریلو صارفین کے بعد صنعتی شعبے کو دوسرے نمبر پر ترجیح دی تھی اور سی این جی کو سپلائی سب سے آخری نمبر پر تھی لیکن سیاسی حالات کے مدنظر ان ترجیحات میں تبدیلی کی جاتی رہی ہے۔ملک میں سی این جی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مستقبل میں صنعت کو گیس سپلائی کرنے کے بارے میں حکومت کے لائحہ عمل کے سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے سندھ اور پنجاب میں قدرتی گیس ایڈوائزری کونسلز تشکیل دی ہیں جس میں ملک کے بڑے ایکسپورٹرز اور اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں۔ پنجاب سے گوہر اعجاز اور سندھ سے مجھے ایڈوائزری کونسلز کا چیئرمین نامزد کیا گیا ہے جس کا مقصد اس قومی اثاثے کو موثر اور ترجیحی بنیادوں پر استعمال کرنے کی تجاویز تیار کرنا، صنعت کیلئے ایل پی جی اور ایئر مکس سے سینتھیٹک (SNG)گیس کی پیداوار جس کی حال ہی میں ECC نے منظوری دے دی ہے سوئی سدرن اور نادرن گیس کمپنیوں کی مشاورت سے نجی شعبے میں ان کی علیحدہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے قیام کے بارے میں سفارشات دینا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس قومی مسئلے پر مجھے اپنی آراء سے آگاہ کریں تاکہ اس اہم ایشو پر ایک صحیح پالیسی مرتب کی جاسکے۔
تازہ ترین