• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر بارک حسین اوباما نے جنگجو وزیر دفاع اور سابق سی آئی اے چیف لیون پنیٹا کو ہٹانے اور ان کی جگہ قدرے صلح جو اور اسرائیل کے موجودہ منصوبوں جس میں ایران پر حملہ اور فلسطینی سرزمین پر بستیاں بنانے کے مخالف چک ہیگل کو وزیردفاع بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے، جنگجو، متکبر، اقتدار کے رسیا اور پاکستان کے خلاف مہم جوئی کے سرخیل امریکہ کے وزیر دفاع لیون پنیٹا کے ہٹائے جانے کی اطلاع ہم نے10 دسمبر 2012ء کے کالم ”امریکہ، انتخابات اور نئی حکومت“ میں دے دی تھی کہ سارے خون کے پیاسے جنگجو اور اوباما حکومت کی حکم عدولی کرنے والے عہدیدار الگ کر دیئے جائیں گے جس میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، سی آئی اے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور وزیر دفاع جنرل لیون پنیٹا شامل ہوں گے۔ پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی ستمبر 2012ء کو کرا دی گئی تھی کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور پاکستان مخالف عناصر کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا جارہا ہے، اس کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی ازسرنو بنیاد رکھی گئی تھی جس میں پاکستان کو اہمیت دی گئی تھی۔ پاکستان نے بھی دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ امریکہ اور دوسرے ملکوں کے پیدا کردہ دہشت گردوں سے امریکہ نے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب اُن کی مالی و فوجی سپلائی لائن کو منقطع کرکے ڈرون حملوں سے مارنے کا فیصلہ ہوا اگرچہ ملا نذیر کے مارے جانے پر پاکستان چراغ پا ہے کہ معاہدہ یہ طے نہیں تھا کہ جن طالبان سے پاکستان کا تنازع نہیں ہے اُن کو بھی ڈرون کی زد میں لایا جائے گا مگر امریکہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتا اس لئے وہ ہمیشہ ناقابل اعتبار رہا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اوباما انتظامیہ نے وزیر دفاع لیون پنیٹا اور دیگر حکام کو پاکستان کو خوش کرنے کے لئے ہٹایا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ گروپ امریکی جمہوریت کے خلاف سازش کررہا تھا اور خود امریکہ میں یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہاں مارشل لاء لگ جائے جس کا برملا اظہار امریکی قلمکار اور دانشور کررہے تھے، لیون پنیٹا اور ڈیوڈپیٹریاس نے اوباما انتظامیہ کو دھوکہ میں رکھا اور اُن کو جنگ افغانستان کے بارے میں غلط اطلاعات فراہم کیں۔ ڈیوڈپیٹریاس نے ایک وقت میں واشنگٹن میں اتنی لابنگ کی کہ اوباما جو امریکہ کی معیشت درست کرنے کے لئے افغانستان سے جلد نکلنا چاہتے تھے، اُن کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ امریکی جنرلوں کو ایک موقع ”صفائی“ کے نام پر دیں اور 30 ہزار افواج وہاں بھیجنے کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ 2014ء میں افغانستان سے نکلنے کا اعلان بھی کردیا، جس سے اوباما انتظامیہ کی دانشمندی اور ارادے کا اظہار ہوگیا انہوں نے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی لابنگ کے ذریعے سے اُن پر جو دباوٴ تھا اس کو اس طرح زائل کیا مگر پھر ڈیوڈ پیٹریاس کو افغانستان سے نکال کر سی آئی اے کا ڈائریکٹر بنا دیا اور لیون پنیٹا کو وزیردفاع اور اُس کے بعد عام تاثر یہ ہے کہ اُن کو ایف بی آئی نے ایک عورت کے ذریعے ”فریم“ کیا اور اُس کو حکم عدولی، جھوٹ بولنے، سازش کرنے اور اوباما انتظامیہ کو افغانستان کی اصل صورتحال سے بے خبر رکھنے پر سزا دی۔ لیون پنیٹا بھی اوباما حکومت کے خلاف سازش میں شریک رہے اور ”جنگجو امریکہ“ کے تاثر کو اجاگر کرتے رہے۔ پاکستان سے تو اُن کو خدائی بیر تھا، اُن کی موجودگی میں امریکہ کے نہ تو پاکستان سے اچھے تعلقات ہوسکتے تھے اور نہ ایران سے تعلقات کو سنوارنے میں کوئی موثر پیشرفت ہوسکتی تھی۔ جس کا ارادہ امریکی صدر ایک وقت میں ظاہر کرچکے تھے۔ یہ جنرل حضرات اسرائیل کے احکامات کی تعمیل میں زیادہ مستعد تھے جبکہ اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایران پر حملہ کرنے پر زور دینے پر ڈانٹ بھی دیا تھا، جس پر کافی شور مچا تھا۔ امریکہ کے نئے نامزد وزیر دفاع چک ہیگل بھی اسرائیل کے ایران پر حملے کے سخت خلاف ہیں اور اسرائیل کی وہ لابی جو دباوٴ بڑھانے کے لئے یک زبان ہو کر مہم چلاتی ہے وہ اس نامزدگی پر خوش نہیں ہے اور سوال کررہی ہے کہ اب اسرائیل کا کیا بنے گا۔ دراصل اسرائیل ایک تیر سے دو شکار کررہا ہے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو لڑا کر کمزور کررہا ہے تاکہ وہ اہم رہ سکے۔ وہ جنگیں کرا کر مسلمانوں کی تعداد کم کرا رہا ہے اور ساتھ ساتھ امریکہ کو معاشی طور سے تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے کیونکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جنگ ہوئی تو امریکہ تباہ ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں اسرائیل لابی کی حمایت خاموشی سے کرنے والی لابی بھی امریکہ سے حب الوطنی نبھاتے ہوئے ایران پر حملے کے خلاف ہے۔ وہ اسرائیل کی نئی بستیاں بنانے کے بھی اس جواز کے ساتھ خلاف ہے کہ یہ تو اسرائیل کی شکست خوردہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ وہ فلسطین میں دو ریاست اسرائیل اور فلسطینیوں کی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسرائیل کی باآواز بلند حمایت کرنے والی لابی یہ کہتی ہے کہ چک ہیگل نے کبھی اسرائیل کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کی۔ سوائے ایک دفعہ کے کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کے اتنے ہی حامی ہیں جتنے کہ صدر بارک حسین اوباما، اوباما نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ان سے اسرائیل کے بارے میں مشکل سوالات نہ پوچھے جائیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ میں اسرائیل لابی یہ سمجھتی ہے کہ اگر کوئی امریکی صدر اسرائیلی لیکوئڈ پارٹی کی حمایت نہ کرے تو وہ اسرائیل مخالف ہے اور اسرائیل سے دوستی کے اظہار کا یہی پیمانہ بنا رکھا ہے۔ اس پر اگر ہم ایماندارانہ مذاکرات نہ کریں تو آگے نہیں بڑھ سکتے، وہ کوئی اسکول سے نئے نئے فارغ طالب علم نہیں ہیں کہ ان کو سکھایا جائے کہ انہیں کیا کرنا ہے جبکہ اسرائیلی لابی کا یہ حال ہے کہ اگر آپ نرم رویہ رکھتے ہیں تو اسرائیلی دوست اور اگر نہیں رکھتے تو آپ اسرائیل کے مخالف ہیں۔ اسرائیل کی خاموش لابی امریکی صدر کے اِس انداز کو پسند کرتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اسرائیلی حکومت غلط راہ پر ہے اور امریکہ درست راستہ اختیار کئے ہوئے ہے۔بہرحال ہم امید کرتے ہیں کہ نئے وزیر دفاع اچھی پالیسی وضع کریں گے اور خصوصاً پاکستان کے ساتھ وہ روابط استوار کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے اور افغانستان میں پاکستان کا جو کردار بنتا ہے اور پاکستان کی جو جغرافیائی حیثیت ہے اس کو تسلیم کیا جائے گا۔ اُس کو ڈرانے، دھمکانے کی پالیسی اگرچہ ترک کی جاچکی ہے مگر امید ہے کہ وہ اُن کے دور میں دوبارہ شروع نہیں کی جائے گی اس کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ مثبت رویہ اختیار کرے گا۔
تازہ ترین