• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی پتہ نہیں کس کی نظر لگی کہ اول تو قائد اعظم محمد علی جناح جن کی قیادت میں چلائی گئی تحریک آزادی کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے‘ کاش قائد اعظم اتنی جلدی پاکستان کا ساتھ نہ چھوڑتے‘ جب پاکستان بنا تو اس وقت بھی قائد اعظم کی طبیعت شدید ناساز تھی‘ آئندہ دو تین سالوں کے دوران ان کی طبیعت اتنی خراب ہوگئی کہ انہیں بلوچستان لے جاکر زیارت کے ایک ٹھنڈے اور پرامن علاقے میں زیر علاج رکھا گیا اس کے باوجود ان کی طبیعت درست نہ ہوسکی اور اسی حالت میں واپس کراچی لایا گیا جہاں وہ انتقال کرگئے ۔

کاش ! اگر قائد اعظم چند سال زندہ ہوتے تو ایک حقیقی جمہوری اور وفاقی آئین ملک کو دے جاتے جس کا ذکر 1940 ء کی قرارداد میں کیا گیا تھا۔ یہ ایک اندوہناک دور تو تھا مگر اب اس سلسلے میں مزید تحقیق کرنے کے نتیجے میں کئی بھیانک راز فاش ہونے لگے ہیں۔ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے بعد جن عوام دشمن‘ جمہوریت دشمن اور وفاق دشمن قوتوں نے ملک پر قبضہ کیا ان کی ہی منصوبہ بندی محسوس ہوتی ہے کہ کسی طرح جلد سے جلد قائد اعظم سے جان چھڑالی جائے تاکہ ان کے بعد کھلے عام اپنی پسند کی گیم اس ملک میں چلائی جاسکے ۔ آیئے فی الحال مختصر طور پر ہی صحیح قائد اعظم کے انتقال کے بعد شروع کئے گئے حالات کا جائزہ لیں تو ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ کیوں قائد اعظم کے بعد ایک لمبے عرصے تک ان کو نہ انتخابات کے ذریعے ملک میں پارلیمنٹری انتخابات کرانے کا وعدہ یاد آیا نہ ان کو نئی منتخب پارلیمنٹ سے ایک جمہوری‘ عوامی اور وفاقی آئین بنانے کا وعدہ یاد آیا۔ انتخابات تو کیا کراتےآئین کیا بناتےملک میں جمہوریت کیا بحال کرتے !اور ملک میں ایک ایسا حقیقی وفاقی آئین کیا بناتے ؟ یہاں تو غیر جمہوری قوتوں نے طاقت کے زور پر ملک پر قبضہ کرلیا اور صوبوں کو 1940 ء کی قرارداد کے مطابق ’’خود مختاری‘‘ اور ’’خود اختیاری‘‘ تو کیا دیتے‘ یہاں تو مغربی پاکستان میں صدیوں سے قائم مختلف قوموں پر مشتمل صوبوں کے وجود کو ختم کرکے مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کردیا گیا‘ یہ کھیل کتنے عرصے تک جاری رہا جس کے دوران پاکستان کی خود مختاری بھی ختم کرکے اسے سیٹو اور سینٹو میں شامل کرکے سپر پاور امریکہ کی غلامی میں دیدیا گیا‘ یہ قصے بہت طویل ہیں‘ وقت آگیا ہے کہ ان سارے واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے ۔ آج کی نسل اور آئندہ نسلوں کو ان حقائق کے اصل اسباب اور حقائق کے تلخ نتائج سے آگاہ کیا جائے۔ کیا پاکستان بناتے وقت قائد اعظم یا تحریک پاکستان کے کسی رہنما نے ملک کو مارشل لائوں کے ذریعے چلانے کی بات کی تھی‘ پھر کیا ہوا؟

ملک کا بڑا حصہ مشرقی پاکستان باقی ملک سے الگ ہوگیا‘ مشرقی پاکستان کیوں الگ ہوا؟ اس کے اصل حقائق پر پردہ پوشی کیوں کی جاتی رہی ہے‘ وقت آگیا ہے کہ اب مزید قدم آگے بڑھانے سے پہلے یہ سارے حقائق اس ملک کے عوام کے سامنے پیش کئے جائیں‘ اس کے لئے ضروری ہو تو ایک نیا ’’حمود الرحمان کمیشن‘‘ قائم کیا جائے۔ بہرحال یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ کے بعد ایک مختصر دور ایسا آیا جس میں نہ فقط کسی حد تک جمہوریت کی جھلک نظر آئی مگر کسی حد تک ایک ایسا آئین بھی ملک کو دیا گیا جس میں جمہوریت کے خدوخال پیش کئے گئے اور ساتھ ہی وفاقی نظام کا کسی حد تک ایک رخ متعین کیا گیا۔ہمارے کئی سیاسی محقق ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کو بھی نہیں بخشتے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی کسی حد تک خرابیاں تھیں۔ درحقیقت آج کے سیاسی دور میں کسی بھی سیاسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے ان کے مثبت اور منفی کارناموں پر مشتمل بیلنس شیٹ قائم کی جاتی ہے پھر اندازہ کیا جاتا ہے کہ یہ دور حتمی طور پر عوام کے مفاد میں تھا یا نہیں‘ کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور میں ڈرائنگ رومز کی سیاست کرنے کے بجائے عوامی سیاست پر زیادہ زور دیا گیا‘ پاکستان کے مفادات کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھٹو کا پاکستان پر اس سے بڑا احسان کیا ہوسکتا ہے کہ جب مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد ڈھاکہ میں بنگلا دیش اور ہندوستان کے جنرلوں کے سامنے ہم نےسرنڈر کیا اس کے بعد خالی ہاتھ بھٹو ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بات چیت کرنے گئے اور ان سے بغیر کچھ دیئے 90 ہزار جنگی قیدی بھی رہا کراکے آئے اور ساتھ ہی ایک وسیع پاکستانی علاقہ جو جنگ کے نتیجے میں ہندوستان کے قبضے میں آچکا تھا ،یہ علاقہ بھی واگزار کراکے واپس پاکستان کے حوالے کرانے میں کامیاب ہوگئےاور بنگلا دیش کی نئی حکومت بنگلہ دیش میں قید کئی پاکستانی فوجی افسران پر مقدمہ چلانے کا اعلان کرچکی تھی مگر شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان سے رہا کرنے سے پہلے ان سے ملاقات کے دوران بھٹو نے شیخ صاحب سے یہ وعدہ لیا کہ بنگلا دیش میںقید ان افسران پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے مگر ان کے بنگلا دیش میں واپس پہنچنے کے ساتھ ہی ان پاکستانی فوجی افسران کو رہا کرکے باعزت پاکستان روانہ کیا جائے گا۔ شیخ مجیب الرحمان نے ایسا ہی کیا۔ (نوٹ-: میرا یہ کالم کافی لمبا ہوگا اور اس کی کئی قسطیں ہوں گی اس میں بھٹو کے کچھ مزید مثبت اقدامات کا ذکر کرنے کے ساتھ بے نظیر بھٹو کے عوامی دور حکومت کےکچھ اہم حقائق کا بھی ذکر کیا جائے گا اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی کی نئی قیادت اور شریف برادران کی طرف سے کرپشن کے ذریعے مجموعی طور پر پاکستان اور خاص طور پر سندھ اور پنجاب کی بربادی کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ آخر میں موجودہ اناڑی حکمرانوں کا ذکر کیا جائے گا کہ وہ کیسے پاکستان کی جگ ہنسائی کررہے ہیں)۔

تازہ ترین