• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں2013ء کو نئے انتخابات کا سال قرار دیا جارہا ہے جبکہ اگلے سال افغانستان میں بھی انتخابات ہورہے ہیں، دونوں ممالک کے انتخابات میں جہاں پاکستان اور افغانستان کے عوام کی دلچسپی کافی زیادہ ہے وہاں امریکہ بہادر کی بھی دلچسپی مختلف مفادات کے حوالے سے کوئی کم نہیں ہے، اس لئے صدر اوباما کی نئی ٹیم ایسے افراد پر مشتمل بنائی جارہی ہے جو قدرے متعدل مزاج رکھتے ہیں تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے کئی معصوم دانشور اور سیاستدان سینیٹر جان کیری کو پاکستان کا دوست سمجھتے چلے آرہے ہیں حالانکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔1990ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جن امریکی شخصیات نے سب سے زیادہ مخالفت کی تھی ان میں نئے امریکی نامزد سیکرٹری خارجہ بھی قابل ذکر ہیں۔ امریکہ کے معتبر حلقوں میں انہیں پاکستان کی نسبت بھارت کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔ اب اگر کچھ حلقوں کی طرف سے تاثر دیا جارہا ہے کہ جان کیری ہمارے دوست ہیں تو انہیں 2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان کی مدت ختم ہونے پر چند ماہ قبل پتہ چل جائیگا کہ وہ اصل میں کس کے دوست ہیں تاہم اس وقت یہ دیکھا جارہا ہے کہ امریکہ کے پاکستان کے خارجہ امور اور اقتصادی معاملات میں مفادات دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور اب ہر امریکی بریف میں قدرے نرم زبان سے چیزیں کہی جارہی ہیں اس پس منظر میں امریکہ اگر پاکستان میں جمہوری تسلسل کی حمایت کررہا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موثر اور جاندار نگران سیٹ اپ پر بھی مثبت انداز میں سپورٹ کررہا ہے اس لئے جس آئی ایم ایف کا پروگرام موجودہ حکمرانوں نے موخر کیا تھا جس کی مالیت 11.3ارب ڈالر تھی جو پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں کی تاریخ کا اس ادارے سے لیا جانے والا سب سے بڑا اور کڑا قرضہ تھا۔ اس پروگرام کو موخر کرنے پر فنڈ کے حکام ناراض بھی ہوئے تھے اور انہوں نے پوسٹ مانیٹرنگ پروگرام پرعمل بھی شروع کرایا تھا لیکن اب امریکہ کی اجازت سے پاکستان کو تقریباً5ارب ڈالر کا ایک نیا قرضہ دینے کے لئے بات چیت کا آغاز کرایا تھا جو یقینا تین چار ماہ میں میچور ہوگا یعنی اس وقت نگران سیٹ اپ آچکا ہوگا جو آتے ہی قوم کو کہے گا کہ ہم نے پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے فوری طور پر اپنے بجٹ خسارہ کو کم کرنے اور ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے کے لئے آئی ایم ایف سے ا یک بڑے قرضہ کا بندوبست کرلیا ہے جس کے بعد اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ یہ سیٹ اپ تین سال تک چلتا رہے اور انتخاب سے پہلے احتساب کا مادی نظام یہاں رائج ہوجائے۔
دوسری طرف چند ہفتوں میں ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں کہ ملک میں امن و امان کی پریشان کن صورتحال کے باوجود” کوئی آگے بڑھ کر“عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنادے ۔ اس سے معاشی طور پر کچھ ایسی سرگرمیاں شروع ہوسکتی ہیں جس سے غریب افراد کی چند ہفتے دال روٹی کا بندوبست ہوسکتا ہے، تاہم ا س سے ملکی معیشت کو عملاً فائدہ تو نہیں ہوسکتا البتہ انفارمل اکانومی جسے اب”گھوسٹ اکانومی“ بھی کہا جاتا ہے اس کا جی ڈی پی میں حصہ موجودہ50فیصد سے بھی مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ حالیہ سالوں میں کرپشن، کمیشن اور غیر قانونی تجارت، سمگلنگ میں ا ضافہ قابل ذکر ہے۔ حالیہ چند سالوں میں بجلی، گیس کے بحران، دہشتگردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث شہری علاقوں سے سرمایہ ایسی معیشت کی طرف زیادہ منتقل ہورہا ہے جبکہ زراعت کے شعبہ کو تباہ کرنے میں بھی موجودہ حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اس وقت پاکستان میں گھوسٹ اکانومی (بلیک منی) کے حجم کے بارے میں قومی سطح پر حکومت یا کسی حکومتی ادارے نے جامع ریسرچ نہیں کی تاہم سٹیٹ بنک کی چند سال پہلے کی ایک سٹڈی کے باوجود انفارمل اکانومی کا حصہ جی ڈی پی کے40فیصد سے زیادہ ہے۔اس وقت پاکستان کی مجموعی معیشت کا حجم اگر200ارب ڈالر ہے تو پھر خیال ہے کہ انفارمل اکانومی کا حصہ120ارب ڈالر سے بہرحال زائد ہے جبکہ وار اکانومی کے حالات کی وجہ سے پشاور،کوئٹہ اور دیگر مقامات پر روزانہ10 سے 20 ملین ڈالر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہورہے ہیں جس میں بڑے بڑے طاقتور لوگ شامل ہیں جن کے ذریعے ہزاروں گاڑیاں اور دیگر سامان غیر قانونی تجارت کے ذریعے پاکستان آرہا ہے۔ عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ایشیاء اور افریقہ میں جی ڈی پی کے تناسب سے انفارمل اکانومی کا حصہ40فیصد سے بھی زائد ہوچکا ہے۔ پاکستان اس وقت ان ممالک میں شامل ہے جہاں غیر قانونی کاروبار اور انفارمل اکانومی میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ایلیٹ کلاس اور پارلیمنٹ کی طرف سے دستاویزی معیشت کو سپورٹ نہ کرنا ہے ۔ یہی کلاس پاکستان کی تباہ حال معیشت کے باوجود فائدے میں ہے اور یہی کلاس پاکستان میں دستاویزی معیشت کا نظام لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لئے کہ پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت ہے اور وہ کبھی ایسا قانون نہیں بننے دیں گے جس سے ان کی امارت میں کمی ہو۔ دوسری طرف غریب کا وہی حال ہے جو دس سال ،بیس سال، پچیس سال پہلے تھا۔ غریب کی آمدن دن بدن کم اور اس کے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس سے وسائل کی عدم دستیابی سے زیادہ عدم مساوات کے حوالے سے زیادہ مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ شاید اس لئے امریکہ کو سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان اپنے بے پناہ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود خود انحصاری نہیں بیرونی وسائل پر انحصار کو پسند کرتا ہے۔ اس لئے امریکہ آنے والے دنوں میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے بیرونی اداروں خاص کر عالمی بنک، آئی ایم ایف وغیرہ کو پاکستان کی سپورٹ کے لئے بھجواتا رہے گا تاکہ ہم اپنا نظام ٹھیک کرنے کی بجائے ایسے ہی چلتے رہیں۔
تازہ ترین